ز رات کی تاریکی نے سب ہی کچھ اپنے دامن میں سمیٹ رکھاتھا سناٹاچھایاہوا تھا مگر اس کےباوجود عمارت کے خاموش مکیں
جاگ رہے تھے روشنیاں جل رہیں تھیں شاید کسی کا انتظارتھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھریہ انتظارجلد ہی اس وقت ختم ہوگیاجب اچانک گاڑیوں کی آمد کے شور نے ارد گرد کے پھیلے ہوئے سناٹے کو ختم کردیا اب گاڑیوں کی ایک قطار عمارت کے اندر داخل ہوئی کچھ مہمان شاید لائے گئے جن کا استقبال خاموشی کے ساتھ ہوا اس کے بعد تو ایک تانتا سا بندھ گیا ہر تھوڑ ی دیر کے بعد کوئی نہ کوئی گاڑی آتی پھر اس میں سے کوئی نہ کوئی مہمان اتارا جاتا اس کو اندر مہمان خانے میں لیجایا جاتا ان مہمانوں کے ساتھ بھاری بھاری ان گنت سوٹ کیس بھی تھے جن میں معلوم نہیں کیا کیا بھرا ہوا تھا ؟ ان مہمانوں کی آمد کے بعد باہر پھر خاموشی پھیل جاتی البتہ عمارت کے اندر چہل پہل اور گہما گہمی تھی ہا ں گاڑیوں کے آنے جانے کا سلسلہ بدستور قائم تھا عمارت کے ارد گرد سخت حفاظتی پہرا تھا اب اس عمارت تک آنے والے تمام راستے سیل کردئے گئے کسی کو آنے جانے اور اس عمارت کے ارد گرد گزرنے کی اجازت نہ تھی ہاں اندر آنے والے مہمان مطمئن پرسکون اور خوش تھے ان کے چہروں سے خوشی چھلک رہی تھی جو چھپائے نہیں چھپتی تھی۔
دوسری جانب یکدم ٹیلی فونوں کی گھنٹیاں بجنے لگیں موبائل فون کھڑکنے لگے ہر ایک سے ایک ہی اطلاع مل رہی تھی کہ ائیرپورٹ کو بند کردیا گیا ہے۔(1) تمام کام بند کرنے کا حکم دیدیا گیا تھا کوئی پرواز نہ اڑ سکتی ہے اور نہ ہی کس پرواز کو ائرپورٹ پر اترنے کی اجازت ہے یہ اطلاع بہت حیرت ا نگیز تھی جنگل کی آگ کی مانند یکدم ہر طرف پھیل گئی ٹیلی فونوں کی گھنٹیاں مسلسل بج رہیں تھیں مگر اس کا کوئی علاج نہیں تھا دور دور اطلاع ہونے لگی دل دھڑکنے لگے اب یہ سوال ابھرنے لگا ؟کیا پھر کوئی واقعہ رونما ہونے کو ہے ؟ اب کس طرح کا واقعہ رونما ہوگا ؟یہ سوال بہت سے ذہنوں میں ابھرا اس کا جواب ڈھونڈنے کے لئے کوشش کی گئی ائیرپورٹ کی جانب جانے اور دیکھنے کی کوشش کی گئی مگر ایک خاص حد سے آگے جانے کی اجازت کسی کو نہ تھی اور کچھ معلوم نہیں ہو سکا مگر سوائے اس کہ کے گاڑیوں کی ایک بڑی قطار کو ائرپورٹ کی جانب جاتے ہوئے دیکھا اس قطار میں ہر طرح کی گاڑیاں شامل تھیں ان میں وی آئی پی گاڑیاں بھی تھیں ان میں فوجی گاڑیاں بھی تھیں ان میں اور دوسری گاڑیاں بھی شامل تھیں مگر ان کے جو بھی مسافرتھے وہ مکمل طور پر خاموش تھے ایسالگ رہا تھا کہ ان کی زبان ہی نہیں ہے نہ ہی کسی اور ذرائع سے کوئی بات معلوم ہو رہی تھی اب بھی بات وہیں تک محدود تھی پھر بھی اشتیاق اور تجسس ختم نہیں ہو رہا تھا پھر اچانک ایک اطلاع ملی یہ ایسی اطلاع تھی جس پر کسی کو یقین نہیں آرہا تھا لوگ اس کو سچ نہیں مان رہے تھے
بھلا یہ کیسے ممکن تھا ؟
ایسا ہو ہی نہیں سکتا ہے؟
کیا کوئی اپنے مفادات کی خاطر اس حد تک بھی جاسکتا ہے اس سے تو وہ بہترتھا ؟؟؟؟؟
وہ تو پھانسی چڑھ گیا تھامگر ملک نہیں چھوڑا تھا
، وہ تو ابھی تک جیل میں ہے اس نے تو کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے اس کو تو مرد حر کا خطاب بھی اس لئے دیا گیا ہے کہ جیل میں رہنے کے باوجود اس نے مصلحت نہیں کی
۔مگردوسری جانب ائیر پورٹ کے اندر جس کے بارے میں باہر عجیب طرح کی باتیں بنائی جارہیں تھیں دوسرا ہی منظر تھا اب عمارت کے اندر موجود مہمانوں کوبڑی اور عمدہ دو کوسٹروں اور ایک سفید مرسڈیز میں بیٹھا کر حفاظتی گاڑیوں کے سائے میں ائیرپورٹ کی جانب لیجایا جارہا تھا مہمانوں کا یہ 30 رکنی گروہ ان کوسٹروں میں اور گاڑیوں اور مرسڈیز میں بیٹھ کر ائیرپورٹ میں پہنچا وہاں بھی ان کو عزت اور تکریم دی گئی اب تھوڑی دیر میں ان کو چلنے کی اطلاع دی گئی سب نے اپنا اپنادستی بیگ اٹھایا جب کہ بھاری سامان ان کے ملازموں اور ائیر پورٹ پر موجود عملے نے اٹھایا پھر یہ قافلہ اس خصوصی جہازکی جانب چل پڑا جس میں ان کو بیٹھ کر جانا تھا یہ خصوصی جہاز وی آئی پی حضرات کے لئے بنایا گیا تھا اس میں ہر طرح کی سہولت موجود تھی اڑنے کے لئے تیار اس جہاز میں جیسے ہی یہ مسافر بیٹھے ویسے ہی جہاز رن وے پر دوڑنے لگا آہستہ آہستہ جہاز اٹھنے لگا اس کے بعد فضا میں بلند ہونے کے بعد وہ جہاز اپنی اس منزل کی جانب گامزن ہو گیا جس کو پہلے سے متعین کردیا گیا تھا جہاز میں بیٹھنے والے یہ مسافر پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کا خاندان تھا۔
پروفیسر غفور احمد نائب امیر جماعت اسلامی نے اپنی کتاب’’ پرویز مشرف آرمی ہاؤس سے ایوان صدر تک میں‘‘ نواز شریف فیملی کی سعودی عرب جلاوطنی کے بارے میں اس طرح سے تحریر کیا ہے ۔
9دسمبر 2000ء کو ماہ رمضان کے دوران پاکستان کے قریب ترین دوست ملک سعودی عرب نے پیش کش کی کہ اگر نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو جلا وطن کر دیا جائے تو وہ انہیں علاج کے لیئے قبول کرلے گا ۔
9دسمبر 2000ء کو ماہ رمضان کے دوران پاکستان کے قریب ترین دوست ملک سعودی عرب نے پیش کش کی کہ اگر نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو جلا وطن کر دیا جائے تو وہ انہیں علاج کے لیئے قبول کرلے گا ۔
چیف ایگزیکیٹو کی ایڈوائیس پر صدر پاکستان نے نواز شریف کی بقیہ سزائے قید معاف کرکے انہیں اوران کے اہل خانہ کو جلا وطن کردیا،، وہ جلا وطنی کی زندگی سعودی عرب میں گزاریں گے ۔ نصف شب کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ ملک و عوام کے بہترین مفاد میں کیا گیا ہے۔ نواز شریف کی نا اہلی برقرار رہے گی ان کی املاک قرق کرنے کا فیصلہ بھی تبدیل نہیں کیا گیا ۔
شریف خاندان اس ڈیل کے تحت ماڈل ٹاؤن کی رہائیش گاہ حدیبیہ ملز اور برطانیہ میں
واقع ہوٹل سے دستبردار ہو گیا۔
واقع ہوٹل سے دستبردار ہو گیا۔
شریف خاندان کا سامان ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ سے رائے ونڈ دیا گیا۔ نواز شریف کو رات 12بج کر دس منٹ پر اٹک قلعہ سے اسلام آباد کے لیئے روانہ کردیا گیا ۔ سعودی عرب کے دو طیارے چکلالہ ائیر پورٹ پر اتر گئے ایک نواز شریف و ان کی اہلیہ اور بچوں کے لئے جبکہ دوسرے طیارے میں ان کے والد اور بھائی گئے تھے۔
(1)
بیگم کلثوم نواز شریف نے اپنی رہائیش گاہ پر الوداعی پریس کانفرنس کی۔
بیگم کلثوم نواز شریف نے اپنی رہائیش گاہ پر الوداعی پریس کانفرنس کی۔
(2) اتوار 10دسمبر 2000ء کوصبح دس بج کر 55منٹ پر نواز شریف اور ان
کے خاندان کو سعودی عرب کے خصوصی طیاروں کے ذریعے حجاز مقدس روانہ کردیا گیا نواز شریف کو صبح چار بجے آفیسرز میس میں لایا گیا ۔ میاں شریف ساڑھے سات بجے اور شہباز شریف ساڑھے آٹھ بجے پہنچے۔ چکلالہ ائیر پورٹ پرنواز شریف روتے ہوئے والدین سے لپٹ گئے ۔ شریف فیملی کو دو کوسٹروں میں لایا گیا ۔ ویڈیو فلم بنائی گئی 30 رکنی قافلے میں ذاتی ملازم بھی شامل ہیں شریف خاندان 100سوٹ کیسوں میں سامان بھر کر ساتھ لے گیا۔
(3)
یہ جہاز سعودی عرب کے شاہی خاندان کے استعمال میں آنے والا جہاز تھے اور اب اس خاندان کی منزل تھی سعودی عرب جہاں ان کو پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ ایک ڈیل کے نتیجے میںآزادی کے ساتھ عیاشی کے ساتھ محلات میں اب دس سال تک گزارنا تھا( اس ڈیل کا انکار اب تک دستا ویزی ثبوتوں کی موجودگی کے باؤجود میاں نواز شریف اور ان کے برادر خرد کرتے چلے آرہے ہیں
یہ جہاز سعودی عرب کے شاہی خاندان کے استعمال میں آنے والا جہاز تھے اور اب اس خاندان کی منزل تھی سعودی عرب جہاں ان کو پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ ایک ڈیل کے نتیجے میںآزادی کے ساتھ عیاشی کے ساتھ محلات میں اب دس سال تک گزارنا تھا( اس ڈیل کا انکار اب تک دستا ویزی ثبوتوں کی موجودگی کے باؤجود میاں نواز شریف اور ان کے برادر خرد کرتے چلے آرہے ہیں
حالانکہ اس ڈیل کے تمام ثبوت موجود ہیں )
اس معاہدے کا انکار نواز شریف اور شہباز شریف دونوں ہی کرتے ہیں مگر یہ معاہدہ موجود ہے |
پروفیسر غفور احمد نائب امیر جماعت اسلامی اپنی کتاب’’ پرویز مشرف آرمی ہاؤس سے ایوان صدر تک میں‘‘ صفحہ نمبر247پر لکھتے ہیں
سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عدالت کو اطلاع دیئے بغیرنواز شریف کی سزا معاف کرکے جلاوطن کرنے سے قانونی پیچیدگی پیدا ہوگی ۔ یہ معاملہ کورٹ کی معرفت طے پاتا۔ حامد ناصر چٹھہ نے کہا کہ سزا یافتہ قیدی کی رہائی نے عدالتی نظام کے پرخچے ارا دئے ۔
قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکومتی اقدام کے ذریعے عدلیہ کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔ احتساب بے معنی ہو کر رہ گیا ہے ۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ ملزم کی پروٹوکول کے ساتھ روانگی بھیانک مذاق ہے۔
نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) نے کہاکہ نواز شریف کی جلاوطنی سے اے آر ڈی کی تحریک پر اثر نہیں پڑے گا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کہا کہ حکومت اور مسلم لیگ کے درمیان معاہدہ ہمارے لئے سر پرائزہے۔معافی مانگنے پر شریف خاندان اور بھٹو خاندان کا فرق ظاہر ہوگیا۔
نواز شریف کی رہائی’’ ججک ‘‘کا کمال اور چھوٹے صوبوں کے خلاف تعصب کی سیاست کا کھلا ثبوت ہے لاہور اور لاڑکانہ کے رہنماؤں سے مختلف سلوک کیا گیا ۔ فوجی حکومت مذاق بن گئی ہے ۔ احتساب کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ۔ نواز شریف کو میڈیکل بورڈ کے بغیر ہی بیرون ملک بھیجا گیا۔
(4)
پاک فوج کے(اس وقت کے ) ترجمان میجر جنرل راشد قریشی نے کہا کہ نواز شریف کی ملک بدری کا فیصلہ اچانک نہیں ہوا شریف خاندان نے معافی کی اپیل کی تھی ۔ نواز شریف نے چند دن قبل انسانی ہمدردی اور خرابی صحت کی بنیاد پر صدر اور چیف ایگزیکیٹو کو معافی کی درخواستیں دی تھیں معافی کا مطلب بے گناہی نہیں معافی وہ مانگتا ہے جو مجرم ہو۔ فیصلہ ملکی مفاد میں کیا گیا۔نواز شریف کے خلاف مزید الزامات ثابت ہونے پر عدالتوں میں کیس چلائے جائیں گے ۔ نواز شریف واپس نہیں آسکتے ہیں ۔
20دسمبر کو ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ نواز شریف کی جلاوطنی کا فیصلہ شریف خاندان کی اپیل پر تفصیلی غور و فکر کے بعد کیا اس کے لیے سعودی ولی عہد(موجودہ شاہ عبداللہ ) نے بھی درخواست کی تھی احتساب کا عمل ختم نہیں ہوا ہے پاکستان میں ان کی ستر فیصد جائداد ضبط کر لی گئی ہے۔
اسلام آباد میں مدیران اخبار کے لئے دعوت افطار میں بات کرتے ہوئے جنرل مشرف نے کہا کہ پوری فوج کا فیصلہ ہے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم نہیں بننا چاہیے نواز شریف اور ان کا خاندان دس برس سے پہلے نہ پاکستان آئیں گے نہ لندن جائیں گے
۔(4)یہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جلاوطنی کی مختصر رودادہے جس کے ذریعے قارئین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح سے یہ ڈیل ہوئی تھی ؟ میاں نواز شریف کی جلاوطنی کی ڈیل کی مکمل روداد ’انشااللہ آئندہ شائع ہونے والی کتاب’’ نواز شریف کی سیاست اور پاکستان کی بربادی ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ پیش کی جائے گی ایک جانب تو نواز شریف صاحب اپنے کارکنوں کو اچانک چھوڑ کر سعودی عرب عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لیے چلے گئے۔
جبکہ پاکستان میں ان کے کارکنوں کو اپنے اندھے اخلاص اور اندھے اعتقاد کے عوض اب ناکردہ جرم کی سزا بھگتنا تھی ان میں سے بہت سے جیل میں اب بھی بند تھے جیسا کہ جاوید ہاشمی نے آٹھ سال تک جیل کاٹی اور سینکڑوں کارکن مسلسل جیل میں بند رہے چوہدری شجاعت ،شیخ رشید ،پرویز الٰہی، علیم عادل شیخ، جنرل ( ریٹائیرڈ) عبدالمجید، کیپٹن حلیم صدیقی اور اعجاز الحق جیسے کارکنوں کو جب اس ڈیل کا پتہ چلا تو ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب کہ بہت سوں کے خلا ف نواز شریف کا ساتھ دینے کے جرم میں مقدمے بھی درج ہو چکے تھے جہاز اب اسلام آباد کی فضاؤں سے باہر نکل رہا تھا رفتہ رفتہ جہاز نظروں سے دور ہوتا گیا پھر اس کے بعد ایکدم غائب ہوگیااب لاکھوں مسلم لیگیوں کو آئندہ ایک عشرے تک مسلم لیگ اور پاکستان سے محبت کی خاطر اب بھوک غربت بے روزگاری کا شکار ہو کر مصائب و الم کا شکار ہونا تھا۔
)...حوالہ جات...(
(1)
روزنامہ جنگ کراچی بروز پیرتاریخ 11دسمبر 2000ء
روزنامہ نوائے وقت کراچی بروز پیرتاریخ 11دسمبر 2000ء
روزنامہ پاکستان کراچی تاریخ بروز پیر 11دسمبر 2000ء
روزنامہ پاکستان کراچی تاریخ بروز پیر 11دسمبر 2000ء
(2)
پرویز مشرف آرمی ہاؤس سے ایوان صدر تک صفحہ 244نمبر
مصنف پروفیسر غفور احمد
(3)
پرویز مشرف آرمی ہاؤس سے ایوان صدر تک , صفحہ نمبر245
مصنف پروفیسر غفور احمد
(4)
پرویز مشرف آرمی ہاؤس سے ایوان صدر تک , صفحہ نمبر247
مصنف پروفیسر غفور احمد
نواز شریف اور شہباز شریف کا جنرل پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ معاہدے کے نتیجے میں پاکستان سے فرار کتاب شریف خاندان نے پاکستان کس طرح لوٹا کا ایک حصہ ہے اس کا جلد ہی دوسرا ایڈیشن شایع کیا جارہا ہے
سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عدالت کو اطلاع دیئے بغیرنواز شریف کی سزا معاف کرکے جلاوطن کرنے سے قانونی پیچیدگی پیدا ہوگی ۔ یہ معاملہ کورٹ کی معرفت طے پاتا۔ حامد ناصر چٹھہ نے کہا کہ سزا یافتہ قیدی کی رہائی نے عدالتی نظام کے پرخچے ارا دئے ۔
قاضی حسین احمد نے کہا کہ حکومتی اقدام کے ذریعے عدلیہ کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔ احتساب بے معنی ہو کر رہ گیا ہے ۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ ملزم کی پروٹوکول کے ساتھ روانگی بھیانک مذاق ہے۔
نوابزادہ نصراللہ خان (مرحوم) نے کہاکہ نواز شریف کی جلاوطنی سے اے آر ڈی کی تحریک پر اثر نہیں پڑے گا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کہا کہ حکومت اور مسلم لیگ کے درمیان معاہدہ ہمارے لئے سر پرائزہے۔معافی مانگنے پر شریف خاندان اور بھٹو خاندان کا فرق ظاہر ہوگیا۔
نواز شریف کی رہائی’’ ججک ‘‘کا کمال اور چھوٹے صوبوں کے خلاف تعصب کی سیاست کا کھلا ثبوت ہے لاہور اور لاڑکانہ کے رہنماؤں سے مختلف سلوک کیا گیا ۔ فوجی حکومت مذاق بن گئی ہے ۔ احتساب کا کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ۔ نواز شریف کو میڈیکل بورڈ کے بغیر ہی بیرون ملک بھیجا گیا۔
(4)
پاک فوج کے(اس وقت کے ) ترجمان میجر جنرل راشد قریشی نے کہا کہ نواز شریف کی ملک بدری کا فیصلہ اچانک نہیں ہوا شریف خاندان نے معافی کی اپیل کی تھی ۔ نواز شریف نے چند دن قبل انسانی ہمدردی اور خرابی صحت کی بنیاد پر صدر اور چیف ایگزیکیٹو کو معافی کی درخواستیں دی تھیں معافی کا مطلب بے گناہی نہیں معافی وہ مانگتا ہے جو مجرم ہو۔ فیصلہ ملکی مفاد میں کیا گیا۔نواز شریف کے خلاف مزید الزامات ثابت ہونے پر عدالتوں میں کیس چلائے جائیں گے ۔ نواز شریف واپس نہیں آسکتے ہیں ۔
20دسمبر کو ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ نواز شریف کی جلاوطنی کا فیصلہ شریف خاندان کی اپیل پر تفصیلی غور و فکر کے بعد کیا اس کے لیے سعودی ولی عہد(موجودہ شاہ عبداللہ ) نے بھی درخواست کی تھی احتساب کا عمل ختم نہیں ہوا ہے پاکستان میں ان کی ستر فیصد جائداد ضبط کر لی گئی ہے۔
اسلام آباد میں مدیران اخبار کے لئے دعوت افطار میں بات کرتے ہوئے جنرل مشرف نے کہا کہ پوری فوج کا فیصلہ ہے کہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو وزیر اعظم نہیں بننا چاہیے نواز شریف اور ان کا خاندان دس برس سے پہلے نہ پاکستان آئیں گے نہ لندن جائیں گے
۔(4)یہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جلاوطنی کی مختصر رودادہے جس کے ذریعے قارئین کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح سے یہ ڈیل ہوئی تھی ؟ میاں نواز شریف کی جلاوطنی کی ڈیل کی مکمل روداد ’انشااللہ آئندہ شائع ہونے والی کتاب’’ نواز شریف کی سیاست اور پاکستان کی بربادی ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ پیش کی جائے گی ایک جانب تو نواز شریف صاحب اپنے کارکنوں کو اچانک چھوڑ کر سعودی عرب عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے کے لیے چلے گئے۔
جبکہ پاکستان میں ان کے کارکنوں کو اپنے اندھے اخلاص اور اندھے اعتقاد کے عوض اب ناکردہ جرم کی سزا بھگتنا تھی ان میں سے بہت سے جیل میں اب بھی بند تھے جیسا کہ جاوید ہاشمی نے آٹھ سال تک جیل کاٹی اور سینکڑوں کارکن مسلسل جیل میں بند رہے چوہدری شجاعت ،شیخ رشید ،پرویز الٰہی، علیم عادل شیخ، جنرل ( ریٹائیرڈ) عبدالمجید، کیپٹن حلیم صدیقی اور اعجاز الحق جیسے کارکنوں کو جب اس ڈیل کا پتہ چلا تو ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب کہ بہت سوں کے خلا ف نواز شریف کا ساتھ دینے کے جرم میں مقدمے بھی درج ہو چکے تھے جہاز اب اسلام آباد کی فضاؤں سے باہر نکل رہا تھا رفتہ رفتہ جہاز نظروں سے دور ہوتا گیا پھر اس کے بعد ایکدم غائب ہوگیااب لاکھوں مسلم لیگیوں کو آئندہ ایک عشرے تک مسلم لیگ اور پاکستان سے محبت کی خاطر اب بھوک غربت بے روزگاری کا شکار ہو کر مصائب و الم کا شکار ہونا تھا۔
)...حوالہ جات...(
(1)
روزنامہ جنگ کراچی بروز پیرتاریخ 11دسمبر 2000ء
روزنامہ نوائے وقت کراچی بروز پیرتاریخ 11دسمبر 2000ء
روزنامہ پاکستان کراچی تاریخ بروز پیر 11دسمبر 2000ء
روزنامہ پاکستان کراچی تاریخ بروز پیر 11دسمبر 2000ء
(2)
پرویز مشرف آرمی ہاؤس سے ایوان صدر تک صفحہ 244نمبر
مصنف پروفیسر غفور احمد
(3)
پرویز مشرف آرمی ہاؤس سے ایوان صدر تک , صفحہ نمبر245
مصنف پروفیسر غفور احمد
(4)
پرویز مشرف آرمی ہاؤس سے ایوان صدر تک , صفحہ نمبر247
مصنف پروفیسر غفور احمد
نواز شریف اور شہباز شریف کا جنرل پرویز مشرف کے ساتھ خفیہ معاہدے کے نتیجے میں پاکستان سے فرار کتاب شریف خاندان نے پاکستان کس طرح لوٹا کا ایک حصہ ہے اس کا جلد ہی دوسرا ایڈیشن شایع کیا جارہا ہے
No comments:
Post a Comment