آم کے آم گٹھلیوں کے دام **
پہلی بار وزیر اعلٰی بننے کے بعد انڈسٹریز میں اضافہ
پہلی بار وزیر اعلٰی بننے کے بعد انڈسٹریز میں اضافہ
وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے بعد اب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ان کا کوئی مد مقابل نہ تھا ان کی مرضی صوبے میں ہر ایک جگہ چلتی تھی بقول سابق صدر ضیاء الحق کے نواز شریف کا کلہ بہت مضبوط ہے ۔ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنے کے بعد سب سے پہلے جو کام نواز شریف اور ان کے خاندان نے کیا وہ یہ تھا کہ اپنی خاندانی دولت میں اضا فہ۔ اب بہتی گنگا میں صرف ہاتھ ہی نہیں دھوئے گئے بلکہ اشنان بھی کیا جانے لگا کہ پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اتفاق گروپ کی کمپنیوں میں اضافہ کیا گیا جو کہ اس طرح سے تھا
1986(1)۔
ء میں اتفاق فونڈریز کا دوسرا یونٹ قائم کیا گیا۔ اس کے لیے مشین روس سے
درآمد کی گئی ۔
1986 (2)
ء میں برادرٹیکسٹائل ملز کا دوسرا یونٹ قائم کیا گیا۔
1987 (3)
ء میں اتفاق ٹیکسٹائل ملز کا دوسرا یونٹ قائم کیا گیا۔
1987 (4)
ء میں اتفاق ٹیکسٹائل ملز کا تیسرا یونٹ قائم کیا گیا ۔
1988 (5)
ء میں خالد سراج ٹیکسٹائل ملز قائم کی گئی۔
اگرچہ کہ مخالفین کے ساتھ دوستوں کی بڑی تعداد نے اس کمپنی سازی کے مشن پر اعتراضات کئے کہ اس کام کو اب رُک جانا چاہیے مگر نہ تو میاں شریف نے اس بات کو مانا اور نہ ہی میاں نواز شریف نے اس شریفانہ مشورہ پر کان دھرا کیونکہ ان کی منزل تو ٹاٹا، برلا، جمشید سے بھی بہت ہی آگے تھی اس لیے اب سالوں کا کام مہینوں میں اور مہینوں کا کام دنوں میں نمٹا کر پاکستان کے سب سے بڑے دولتمند بننے کے خواب کی تکمیل کے لیے جدوجہد کی جانے لگی
۔
* وزیر اعلیٰ بننے کے بعد پُراسرار نج کاری *
میاں نواز شریف کی پہلی وزارت کے دور میں ہی سرکاری سطح پر بدعنوانیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ مخالفین کے الزامات تو تھے ہی ، خود ان کی اپنی جماعت کے ارکان نے بھی میاں نواز شریف ، ان کی حکومت اور ان کے خاندان پر سنگین نوعیت کی بدعنوانیوں کے الزامات عائد کئے۔ ملک کے تمام اخبارات میں شریف حکومت اور ان کے بھائی شہباز شریف ان کی حکومت کی مبینہ بدعنوانیوں کی داستانیں شائع ہوئیں۔
ان الزامات میں اتفاق شوگر ملز کو ناجائیز طور16 کروڑ روپے کا فائدہ پہنچانے اور میاں شہباز شریف کی طرف سے 8کروڑ روپے کی ایکسائز ڈیوٹی چرانے کا الزام نمایاں تھا ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میاں برادران جو اس وقت پوری قوت کے ساتھ اقتدار میں تھے ان سنگین بد عنوانیوں کے الزامات کی تردید نہ کرسکے اور نہ کسی قسم کی انکوائیری کا اہتمام کرسکے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ان بدعنوانیوں میں ملوث تھے۔
( 1)
پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد جو جو دوسرے اہم اورضروری کام میاں نواز شریف نے انجام دیے ان میں پنجاب کے شوگر ملوں کی نج کاری تھی بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب صنعتی ترقیاتی بورڈ (Punjab Industries and Development Board)کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے
پسرور شوگر مل،
سمندری شوگر مل ،
راہولی شوگر مل،
ہڑپہ ٹیکسٹائل
اور غازی مل.
کی نج کاری کی منظوری دی ان یونٹوں کو کیسے اور کس قیمت پر بیچا گیا ؟ یہ بات آج بھی راز ہے ۔روزنامہ ڈان کی مئی 1991میں چھپنے والی’’ کمپنی ‘‘ جائزہ رپورٹ سے پسرور شوگر مل کے بارے میں پتہ چلتا ہے یہ مل یونائٹیڈ گروپ کی یونائٹیڈ شوگر مل کو صرف ایک روپیہ کی ٹوکن قیمت پر دے دی گئی ۔ اسی طرح سمندری شوگر مل منوں گروپ کواور راہولی شوگر مل اخبارات میں ایک سطر کے اشتہار کو شائع کرنے کے بعد مسلم لیگی رہنماشیخ منصور کو دی گئی۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح بحیثیت وزیر اعلیٰ انہوں نے اپنے قریبی دوستوں اور حلقے کو نوازا، میاں نواز شریف کی جانب سے اپنے اپنوں کو نوازنے کی اس مہم کے دوران یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان کا فرنٹ مین کون تھا؟ ؟اوراس سودے میں اتفاق فیملی کے اس ہو نہار بروے نے کتنا کچھ کمایا ؟
(2)
* صوابدیدی فنڈ یا حلوائی کی دکان *
سیاسی قوت میں اضافے کے لئے سیاسی وفاداریاں خریدنے کی طرف متوجہ ہوئے نواز شریف روپے کے عوض سیاسی وفاداریاں خریدنے کی پوری ایک روایت رکھتے ہیں نواز شریف قومی دولت کو بے دریغ ارکان اسمبلی پر لٹاتے اور انہیں اپنا ہمنوا بناتے رہے ۔ ابھی نواز شریف صوبائی سطح پر سرگرم تھے اور انہوں نے تقریباً اپنے سیاسی سفر کا آغاز ہی کیا تھا کہ قومی خزانے سے خیرات کرنے لگے ۔ نواز شریف نے اپنی پہلی وزارتِ اعلیٰ کے دوران صرف چند ماہ میں اپنے گروپ کے ارکان اسمبلی کو صوابدیدی فنڈز سے بھر پور انداز میں نوازنا شروع کردیا۔
(3)
نواز شریف نے شروع ہی میں صوابدیدی فنڈز کے بے دریغ استعمال کا فلسفہ اپنایا اور اپنے’’ حلقہ اثر‘‘ کو ہمیشہ وسیع کرنے کی کوشش میں رہے ۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں دسمبر 1988ء کو گورنر پنجاب کو ایک آرڈیننس جاری کرنا پڑا(جب جنرل ضیاالحق کے طیارے کے حادثے کو چار ماہ کی مدت گزر گئی تھی اور بے نظیر حکومت کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا) جس کے مطابق وزیر اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈز کی 10لاکھ روپے کی سالانہ حد کو کسی بھی مناسب حد تک بڑھادیاگیا۔
مضحکہ خیز انداز میں آرڈیننس پچھلی تاریخ یعنی دسمبر1985ء سے نافذالعمل کردیا گیا ۔ جب نواز شریف نے وزیر اعلیٰ کا عہدہ دوسری بار سنبھالا تو اس وقت بہت کم لوگوں کو اس آرڈیننس کی اہمیت کا احساس تھا اس آرڈیننس کو پنجاب اسمبلی میں موجود پیپلز پارٹی کے 100ارکان بھی نہ روک سکے نواز شریف کے مخالفین نے یہ نکتہ اٹھایاکہ جب نواز شریف کے صوابدیدی فنڈ کی حد10لاکھ روپے تھی تو نواز شریف نے 4کروڑ روپے کیسے خرچ کرلئے؟
وزیر اعلیٰ نواز شریف نے1985ئسے1990ئکے عرصے کے دوران صوابدیدی فنڈز کے استعمال کی قانونی حد کی اس طرح سے خلاف ورزی کی ۔
(4)
1985-86(1)
-ء میں 12 لاکھ روپے
1987-86 (2)
ء میں 1کروڑ89لاکھ 50 ہزار روپے
1988-87 (3)
ء میں1کروڑ89لاکھ 90 ہزار روپے
(4)
مزید 1کروڑ88لاکھ 80 ہزار روپے
ان اعداد و شمار سے صاف طور پر عیاں ہوتا ہے کہ
نواز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ 85سے88کے درمیانی عرصے میں5کروڑ 20لاکھ روپے اپنے صوابدیدی فنڈز سے ناجائیز طور پر نکلوا کر استعمال کیئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صوابدیدی فنڈز میں سے ایسی ادائیگیاں بھی کی گئی جو قانوناً جائز تھیں مگر ایسی دلچسپ مثالوں کی کوئی وضاحت نہیں کی جاسکتی جیسا کہ
’’ ڈون اسکول سوسائٹی‘‘ کو 2 کروڑ روپے کا عطیہ اس لئے دیا گیا کہ یہ سوسائٹی امرا کے بچوں کے لئے ایک پرائیوٹ اسکول قائم کرنے کا ارادہ کررہی تھی ۔ اس طرح بعض صحافیوں کو اس اکاونٹ سے رقوم ادا کی گیءں مگر کس مقصد کے لئے ؟اس کا کہیں بیان نہیں ۔ یہ نکتہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ سرکاری افسروں کو دس دس ہزار سے زیادہ رقوم کے بے شمار چیک دئیے گئے مثلا وزیر اعلیٰ کے ایک اسٹاف آفیسر ایم اے حمید کو چار دنوں میں جو بے شمار چیک جاری کئیے گئے ۔ ان کی کل رقم 4لاکھ سے متجاوز تھی ۔ اسی طرح ملتان ڈویژن کے کمشنر کو نامعلوم مقاصد کے لیے 7لاکھ روپے سے زیادہ کی اداءئگی کی گئی ۔ یہ کہیں بھی واضح نہیں ہوتا کہ افسر شاہی کے کارندوں کو ان کی زاتی حیثیت میں ادائیگیاں کی گئیں یا ان کے پیچھے کوئی سیاسی مقاصد کارفرما تھے ۔ بعض چیکوں کے ذریعے پلاٹوں کی خرید کے لئے ادا کی گئی دراصل ان پلاٹوں کی مارکیٹ میں قیمتیں چار ہا پانچ گنا زیادہ تھیں اس لیئے سرکاری خزانے کا استعمال کیا گیا ۔ ضلع کونسلوں میں میونسپل کمیٹیوں کو بڑی بڑی رقوم اس لئے ادا کی گئیں کہ وہ بڑے بڑے عوامی جلسوں کو منظم کریں اور وفاق کی قانونی اور منتخب حکومت)
1988
ء کی پیپلز پارٹی کی حکومت) کی مذمت کرنے میں پیش پیش ہوں ۔ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کو وزیر اعلیٰ کے سیاسی دوروں کے لئے نقد رقوم ادا کی گئیں۔
میاں نواز شریف کی پہلی وزارت اعلیٰ کے دور میں ہی سرکاری سطح پر بدعنوانیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا ۔ مخالفین کے الزامات تو تھے ہی خود ان کی اپنی جماعت کے ارکان نے بھی میاں نواز شریف، ان کی حکومت اور ان کے خاندان پر سنگین نوعیت کی بدعنوانیوں کے الزامات بھی عائد کیے ملک کے تمام بڑے اخبارات میں شریف حکومت اور ان کے بھائی میاں شہباز شریف کی مبینہ بد عنوانیوں کی داستانیں شائع ہوئیں۔ ان الزامات میں اتفاق شوگر ملز کو ناجائز طور پر16 کروڑ روپے کا فائدہ پہنچانے اور میاں شہباز شریف کی طرف سے 8کروڑ روپے کی ایکسائز ڈیوٹی چرانے کا الزام نمایاں تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ میاں برادران جو اس وقت پوری طرح سے تردید کا انتظام بھی نہیں کرسکے۔
)...حوالہ جات...(
(1) شریف لٹیرے صفحہ نمبر60.59. مصنف شاہد الرحمان
(2) نواز شریف کا پہلا دور حکومت میں صفحہ نمبر212 مصنف پروفیسر غفور احمد
(3) عزم و ہمت کی داستان صفحہ نمبر50 مصنف محمد شہباز شریف
(4) شریف لٹیرے مصنف شاہد الرحمان
(5) بدعنوانی کی حکومت صفحہ نمبر 279/280. مصنف مجاہد حسین
ٌٌٌٌ** ** **
مندرجہ زیل معلوماتی ویب سائٹس ملاحظہ کیجیے
نواز شریف اور ان کے خاندان کے کارناموں کی تفصیلات ملاحظہ کیجیے
NAWAZ SHARIF RAIWIND
Address: sharifpalace.blogspot.com
پاکستان کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے لیے دیکھیے
Address:.pakistan-research.blogspot.com
پاکستان کے دفاعی اداروں کے بارے میں جانیے
متحدہ عرب امارات کے بارے میں جاننے کے
لیئے دیکھیےuaesearch.blogspot.com
پاکستان کے رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے بارے میں جانیے
balochistansearch.blogspot.com
مسلم کمرشل بنک کی کرپشن کے بارے میں جانیے
mcb-mianmansha.blogspot.com
منشیات اور منشیات فروشوں کے بارے مِن جانیے
norcotic-search.blogspot.com
پاکستان کے رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے بارے میں جانیے
balochistansearch.blogspot.com
مسلم کمرشل بنک کی کرپشن کے بارے میں جانیے
mcb-mianmansha.blogspot.com
منشیات اور منشیات فروشوں کے بارے مِن جانیے
norcotic-search.blogspot.com
No comments:
Post a Comment