اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام اور جنرل میرزا اسلم بیگ جنرل حمید گل اور بریگیڈیر امتیاز کا کردار





اسلامی جمہوری اتحاد کا قیام اور جنرل میرزا اسلم بیگ  جنرل حمید گل اور بریگیڈیر امتیاز کا کردار 

ان اقدامات کے باوجود ابھی تک ان لوگوں کی سیاسی حیثیت مستحکم نہیں تھی اور وہ طوفان کے سامنے
 تنکے نظر آرہے تھے لہٰذا ان سب کی مدد جنرل حمید گل نے کی اور بہت سی جماعتوں کو اکھٹاکرکے ایک انتخابی تنظیم میں پرو دیا کوشش تو پہلے سے ہی ہورہی تھی مگر حمید گل کی مداخلت سے تمام معاملات دو دن کے اندر اندر طے ہو گئے اور اسلامی جمہوری اتحاد یعنی IJIوجود میں آگیا جس کا منشور ، ایک جھنڈا اور ایک ہی نشاں راتوں رات بن گیا۔

محمد سردار چودھری سابق آئی جی پنجاب 

نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا ۔ ہمارے ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے وہ ایجنسیوں نے بنوائے اس بات کا کون انکار کرے گا کہ اسلامی جمہوری اتحاد آئی جی آئی(IJI)آئی ایس آئی نے بنوائے تھے ابھی تو مہران بینک کا مقدمہ سپریم کورٹ میں موجود ہے جنرل درانی نے حلف نامہ دیا تھا کہ کن کن لوگوں کو رقم تقسیم کی گئی جنرل درانی آئی ایس آئی کے ڈی جی تھے ان سے کون پوچھے گا کہ انہوں نے کس حیثیت سے سیاستدانوں میں رقم تقسیم کیں؟ کیا ایسی روایت کسی ملک میں ہے؟ نوابزادہ نصراللہ نے آئی جی آئی(IJI) سمیت پاکستان میں قائم ہونے والے تمام سیاسی اتحادوں کے قیام کے بنیادی سبب پر روشنی ڈالی ہے ۔(1)

سابق آئی جی پنجاب سردار محمد چوہدری نے آئی جی آئی یا اسلامی جمہوری اتحادبننے کے اسرار و رموز پر اس طرح سے روشنی ڈالی ہے ۔ان اقدامات کے باوجود ابھی تک ان لوگوں کی سیاسی حیثیت مستحکم نہیں تھی اور وہ طوفان کے سامنے تنکے نظر آرہے تھے لہٰذا ان سب کی مدد جنرل حمید گل نے کی اور بہت سی جماعتوں کو اکھٹاکرکے ایک انتخابی تنظیم میں پرو دیا کوشش تو پہلے سے ہی ہورہی تھی مگر حمید گل کی مداخلت سے تمام معاملات دو دن کے اندر اندر طے ہو گئے اور اسلامی جمہوری اتحاد یعنی IJIوجود میں آگیا جس کا منشور ، ایک جھنڈا اور ایک ہی نشاں راتوں رات بن گیا ۔ یوں پیپلز پارٹی مخالف قوتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئیں اسلامی اتحاد کی تخلیق و تنظیم میں جماعت اسلامی کی انتظامی صلاحیت نے بہت کام دکھایا اس کے نظریاتی ورکرز نے پورے ملک میں اس تنظیم کو متعارف کروایا۔(2)
مسلم لیگ کے رہنما مرحوم اقبال احمد خان مسلم اسلامی جمہوری اتحاد  کے قیام پر اپنے اپنے انداز سے روشنی ڈالتے ہیں
 ۔
محمد خان جونیجو اس وقت الگ تھے ۔ ہم نے تو آئی جی آئی بننے کے بعد اس میں شمولیت کی کس طرح یہ بنی ؟پتہ نہیں اس کی تفصیل بتا سکتے ہیں نسیم آہیر وہ اس وقت منسٹر تھے وہ کررہے تھے ۔آئی جی آئی جب بنی ہم ساتھ نہیں تھے لیکن میرا خیال ہے ۔ کہ آئی جی آئی آئی ایس آئی نے بنوائی اور حمید گل کا یہ BRAIN CHILD(اختراع) تھا ۔ اس کے بعد رول ادا کیا نسیم آہیر نے ۔ اس وقت وہ انٹیریر منسٹر تھا یا کیا تھا ۔ آئی جی آئی میں ساری ڈمی پارٹیاں تھیں ۔ سوائے جماعت اسلامی کے اور نواز لیگ کے باقی کونسی پارٹی تھی ۔ باقی سب ڈمیز تھیں۔
 چلو جتوئی صاحب کو بھی مان لیں ۔ 1988 میں تونہیں1990 ء میں وہ سٹنگ وزیراعظم ( نگران) تھے ۔ خاکسارپارٹی، جتوئی، مولوی سمیع کی پارٹی ،آغا مرتضیٰ پویا پارٹی پر فضل حق وہ ایک پارٹی تھی ایک اہل حدیث پارٹی تھی۔نسیم آہیر بیٹھا تھا ۔ بات چھڑی تھی کہ آئی جی آئی( IJI)کاہے کی بنی ہے ۔ اس نے کہا ’’ لو جی میں ایک اور پارٹی لے آیا ہوں ۔ ’’کونسی‘‘۔ نظام مصطفیٰ پارٹی ۔ وہاں ایک ہوتا تھا حاجی حنیف طیب اس نے یہ پارٹی بنا ئی تھی ‘ نظام مصطفیٰ پارٹی ۔ وہ کہنے لگا میں ایک اور پارٹی لے آیا ہوں نو پوری کر لیں اس نے‘ میں نے کئی بار کہا تھا نواز شریف سے جو آئی جی آئی کا سربراہ تھا کہ گنوا دیں نو پارٹیاں کونسی ہیں ؟۔ آئی جی آئی( IJI) بھی عجیب ہے اس قوم کے ساتھ مذاق تھا ۔ (3)

پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب ’’وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نامزدگی سے بر طرفی تک‘‘ میں آئی جی آئی کی تشکیل اور ماہیت پر اس طرح سے روشنی ڈالی ہے۔ 

6اکتوبر1988ء کو اسلام آباد میں آٹھ سیاسی اور دینی جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کا اہم اعلان کیا۔ 

جس میں یہ جماعتیں شامل ہوئیں
.1نیشنل پیپلز پارٹی .2مسلم لیگ (فدا گروپ)
3 .جمعیت علمائے اسلام( درخواستی گروپ) .4مرکزی جمعیت اہل حدیث(لکھوی گروپ)
.5 نظام مصطفیٰ گروپ .6حزب جہاد
7 . جمعیت مشائخ پاکستان 8 .آزاد گروپ
مرکزی عہدیداروں کے انتخاب تک غلام مصطفی جتوئی کو اتحاد کا کنوینر مقرر کیا گیا.
اس اتحاد کی تشکیل کے وقت مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم تھی ایک کے صدر فدا محمد خان تھے جو وزرائے اعلیٰ کی مسلم لیگ بھی کہلاتی تھی اور دوسرے دھڑے کے صدر محمد خان جونیجو تھے. ) (4 
10اکتوبرکو اسلام آباد میں اتحاد کے رہنماؤں غلام مصطفی ‘ نواز شریف‘فضل حق‘ نسیم آہیر‘مولانا سمیع الحق‘اور قاجی عبدالطیف کے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد اور پروفیسر خورشید احمد سے جماعت اسلامی کی اتحاد میں شمولیت کے بارے میں مذاکرات ہوئے جو تقریباًتین گھنٹے جاری رہے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہوئے اور 10اکتوبر1988ء کو جماعت اسلامی پاکستان اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل ہوگئی۔
(5) 
*۔چیف آف آرمی اسٹاف کے گھر پر آئی جی آئی کا پہلا اجلاس۔*
24اکتوبر 1988ء کو مجھے اسلام آباد میں فون پر یہ پیغام ملا کہ میں آج رات کے کھانے میں چیف آف آرمی کی سرکاری رہائش گاہ پر ان کے ساتھ شریک ہوں۔ 
اس سے قبل مجھے جنرل صاحب سے شرف ملاقات حاصل نہیں تھا جتوئی صاحب بھی ان دنوں اسلام آباد میں تھے وہ اسلامی اتحاد کے کنوینر تھے اس لئے یہ پیغام ملنے کے بعد میں ان کے پاس گیا اور بتایا کہ آج مجھے کھانے پر مدعو کیا گیا ہے جتوئی صاحب نے کہا کہ وہ بھی وہاں مدعو ہیں۔ میں وقت مقررہ پر نو بجے شب جنرل صاحب کی رہائش گاہ واقع پشاور روڈ پر پہنچ گیا ۔ جتوئی صاحب بھی اس وقت ڈاکٹر سرفراز کے ساتھ ان کی پیجیرو جیپ میں سوار کوٹھی میں داخل ہوئے ان کا گاڑی پر این پی پی کا جھنڈہ لہرا رہا تھا دوسرے اصحاب بھی آنا شروع ہوگئے۔
شرکاء میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ وفاقی وزیر داخلہ نسیم آہیراور

 آئی ایس آئی
 کے سربراہ حمید گل شامل تھے ۔ ہم سب جنرل اسلم بیگ کے ہمراہ کھانے کی میزپر بیٹھ گئے۔ کھانے سے قبل آنے والے انتخابات پر بات چیت ہوئی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے جنرل حمید گل نے حال ہی میں تشکیل پانے والے اسلامی جمہوری اتحادکے بارے میں اپنا تجزیہ پیش کیا اور کہا کہ گو مسلم لیگ کا اتحاد عمل میں آگیا ہے ۔ لیکن اس کے باؤجود اب بھی مسلم لیگ میں دونوں گروپ موجود ہیں پارٹی میں ڈسپلن کا فقدان ہے ۔ جن لوگوں کو ٹکٹ نہیں ملے ہیں وہ اپنا نام واپس لینے کے بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔ 
غلام مصطفی جتوئی اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ نیشنل پیپلز پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے بارے میں غیر مطمئن ہے ۔
جمعیت علماء اسلام بھی اس بارے میں ناراض تھی لیکن مولانا اجمل قادری کو ٹکٹ نہ دیئے جانے کی وجہ سے اس ناراضگی میں مزید شدت پیدا ہو گئی ۔
جماعت اسلامی کو شکایت ہے کہ اتحاد میں شمولیت کے وقت اسے جتنی نشستیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا نہیں کیا گیا۔ نیز جماعت کے طلبہ ونگ کو حکومت پنجاب سے شدید شکایات ہیں ان کی موجودگی میں جماعت اور اتحاد کو انتخابات کے موقع پر نوجوانوں کا تعاون حاصل نہیں ہوگا۔
آزاد گروپ بھی اس لئے غیر مطمئن ہے کہ سیدہ عابدہ حسین کو ٹکٹ دینے کی اس کی خواہش پوری نہیں کی گئی ۔
جمعیت اہل حدیث بھی ٹکٹوں کی تقسیم پر خوش نہیں ہے۔
آغا مرتضیٰ پویا کو اسلام آباد کی نشست نہ دیئے جانے کے باعث حزبِ جہاد بھی ناراض ہے۔ 
اس عمومی تجزیے کے بعد جنرل حمید گل نے کہا کہ ان کے اب تک کے سروے کے مطابق پیپلز پارٹی کو اسلامی جمہوری اتحاد پر فوقیت حاصل ہے ۔ انہوں نے صوبہ وار نشستوں کا تفصیلی جائزہ لے کر بتایا کہ پیپلز پارٹی صوبہ سرحد ‘ پنجاب اور سندھ میں اتحاد سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ وہ صرف بلوچستان میں اتحاد سے پیچھے ہے ۔ ان کے سروے کے مطابق قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی 94نشستوں پراور اتحاد68نشستوں پر کامیاب ہونے کی پوزیشن میں ہے ۔
جنرل حمید گل کے اس سروے سے جنرل فضل حق اور نسیم آہیر نے اختلاف کرتے ہوئے اسے غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا ، فضل حق نے کہا کہ صوبہ سرحدکے حالات سے وہ زیادہ واقف ہیں ۔ ان کا خیال تھا سرحد میں اتحاد کی کامیابی بالکل یقینی ہے نسیم آہیر کا بھی یہی کہنا تھا کہ اتحاد کو پیپلز پارٹی پر فوقیت حاصل ہے ۔
اسلامی جمہوری اتحاد کو قائم ہوئے ابھی تقریباًدو ہفتے ہی گزرے تھے ۔ جنرل حمید گل نے جن اندرونی خامیوں کی نشاندہی کی تھی وہ حقیقت پر مبنی تھی مسلم لیگ کے اتحاد کے باؤجود جونیجو نے بالکل آخر وقت میں 18اکتوبرکو عملاً اتحاد میں شرکت کی۔ جبکہ ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ مکمل ہو چکا تھا۔ عجلت میں جونیجو گروپ کیلئے کچھ جگہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی متحدہ مسلم لیگ کے صدر جونیجو تھے لیکن ٹکٹوں کی تقسیم میں نواز شریف کا پلڑا بھاری تھا۔ شریک جماعتوں میں باہمی اعتماد کا فقدان تھا ۔ اہم رہنماؤں کے درمیان شخصیتوں کا ٹکراؤ بھی موجود تھا۔ جونیجو اور جتوئی کے درمیان تو اختلافات پہلے سے موجود تھے اسلام آباد کی نشست کے سوال پر ان میں زیادہ اضافہ ہو گیا ۔ اخباری بیانات ان اندرونی اختلافات کی تشہیر کا ذریعہ بن رہے تھے ۔ افغان پالیسی پر بھی جونیجو کے موقف سے اتحاد میں شامل دوسری جماعتیں متفق نہیں تھیں (6)۔ جنرل ضیاء الحق کی تدفین کے بعد ان کے ساتھیوں کوبیک وقت دو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑاجو عملاً ایک پریشانی کے دو حصے تھے اور وہ تھی ضیاء ازم کی بقا اور اس کی پرورش و پرداخت اس معاملے کا دوسرا حصہ ظاہر ہے کہ بینظر بھٹو اور پیپلز پارٹی کو اقتدار سے آنے سے روکنا تھا مگر کیفیت یہ تھی کہ جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحٰق خان اس حوالے سے کسی سازش کا حصہ بننے کے لئے تیار نہ تھے اگر چہ کے دونوں حضرات اتنے مضبوط بھی نہ تھے کہ کھل کر سازشی عناصر کی مخالفت مول لیں مگر ان کی خواہش اور کوشش یہ ہی تھی کہ جیسا بھی ہو ان کے سرآئی ہوئی ذمہ داری بخیرخوبی پوری کردیں۔(7)
ایک موقعہ پر بریگیڈئیر امتیاز نے خود مجھے بتایا1988 ئمئی میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے انتخابی اتحاد ان کے ادارہ نے بنوایا تھا۔ (8)
بھٹو کی چھپی ہوئی طاقت کو محسوس کرنے کے بعد 
آئی ایس آئی  کے  سربراہ حمید گل نے سوچا کہ حزبِ اختلاف کوآ مضبوط کیا جائے اور خصوصاً مسلم لیگ کو اوپر رکھا جائے اور یہ کام پنجاب سے شروع ہونا چاہیے اطلاعات کے مطابق حمید گل خود لاہور گئے اور اسلامی جمہوری اتحاد کے سائے میں جس میں ضیاء کے چہیتے میاں نواز شریف بھی شامل ہوں قائم کریں اس IJIکا سربراہ PPPکے ایک غیر وفاداررکن غلام مصطفی جتوئی قرار پائے
 نواز شریف نے ضیاء کے دور میں پہلے وزیر خزانہ اور پھر وزیر اعلیٰ کے عہدے پر پائے مبارک رکھا۔ یہ حضرت ایک مالدار شوقین سیاست پسند تھے۔ جنہیں بڑھتی ہوئی شہری آبادی پر نظر رکھنے کے علاوہ دائیں بائیں دیکھنا نہیں آتا تھا ISIکے سربراہ اور ان کے نائب نے IJIکو ڈراناشروع کیا کہ بینظیرجوہری توانائی کے منصوبے کو معطل کردیں گی اور کشمیر میں جہادی کارروائیاں بھی ختم کر دیں گے ۔ اس طرح PPPکی تمام مخالف جماعتیں جن میں زیادہ تر اسلام پسند تھیں اب متحد ہو جائیں تاکہ PPPکو من مانی کرنے سے روک سکیں۔ (9) 
6 نومبر کو رات دس بجے جنرل مرزا اسلم بیگ سے ان کی رہائشگاہ پر میری دوسری ملاقات ہوئی اس موقع پر جنرل حمید گل‘ وفاقی وزیر نسیم آہیر‘ غلام مصطفیٰ جتوئی‘ اور نواز شریف بھی موجود تھے ۔جنرل حمید گل نے کہا کہ اسلامی اتحاد کی الیکشن مہم کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے ۔ لیکن ہمارے سروے کے مطابق ابھی انتخابی نتائج پر اس کا خاطر خواہ اثر مرتب نہیں ہوسکا ہے صوبہ سرحد میں اتحاد کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوئی ہے ۔ ہمارے نشست دار تجزیہ کے مطابق قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کو 90اور اسلامی اتحادکو69نشستوں پر کامیابی حاصل ہونے کا امکان ہے اسلامی جمہوری اتحاد انتخابات کے بعد کے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ابھی سے ایک علیحدہ سیل قائم کر دے جو وفاق کے زیر اہتمام قبائلی علاقوں فاٹا کے آزاد امیدواروں ،پاکستان نیشنل پارٹی (PNP) اور جمعیت علمائے اسلام کے کامیاب ممبران سے رابطہ قائم کر سکے ۔ مولانا فضل الرحمان ‘ پیر پگارا‘ حاجی حنیف طیب اور ایم کیو ایم سے بھی رابطہ قائم کیا جائے۔ پی این پی بلوچستان میں اور جے یو آئی سرحد میں کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ (10)َ 
آئی جی آئی کی تشکیل کے بعد اس کا سب سے پہلا اہم کام تھا انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنا اور اس نظام کو قائم رکھنا جو جنرل ضیاء نے تشکیل دیا تھا مگر انتخابات میں آئی جی آئی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ا علاوہ وہ نتائج نہیں دے سکی جو اس کے تشکیل کے ذمہ دار چاہتے تھے اس لئے انہوں نے مشترکہ کوشش کی کہ کسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت کو ناکام بنا دیا جائے۔
1988ئمیں جب اسلامی جمہوری اتحاد(IJI) بنا تو بھی کیفیت یہ ہی تھی مگر چونکہ حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جواس اتحاد کے کرتا دھرتا تھے سو صوبائی حکومتوں نے علی الخصوص اور وفاقی حکومت نے علی العموم اپنے ذرائع کو ناجائیز طور پر استعمال کیا اس میں حکومتی فنڈ کے علاوہ وزراء اعلیٰ اور بعض دوسرے عمائدین سلطنت کے سرکاری طیاروں کو انتخابی مقاصد کے لئے استعمال کی داستانیں ان دنوں عام تھیں وفاقی دارالحکومت سے تعلق رکھنے والے آئی جی آئی کے امیدوار کا جھگڑا طے کرانے کے لئے لاہور کے ایک اخبار سے تعلق رکھنے والے حکومتی مشیر کو سرکاری طیارہ دے کر غلام مصطفی جتوئی سے ملنے نواب شاہ بھیجا گیا کہ وہ جتوئی صاحب کو آئی جی آئی کے امیدوار کے مقابل کھڑے ہونے والے امیدوار کی دستبرداری کے لئے آمادہ کریں اس کے علاوہ تمام سرکاری ذرائع اور فنڈز آئی جی آئی کی انتخابی مہم میں جھونک دئے گئے ۔ (11)



* اسلامی جمہوری اتحاد کی جماعتیں *

اتحاد کی انتخابی مہم کا تما م زور صوبہ پنجاب تک ہی محدود رہا، سرحد بلوچستان اور سندھ میں اتحادمیدان میں موجود نہ تھا ۔ اتحاد میں شامل سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ اپنے اندرونی انتشار کا شکار تھی ۔ مسلم لیگ کے دونوں دھڑے متحد ہونے کے باؤجود باہم متحارب رہے ۔ جن افراد کو اتحاد کے ٹکٹ نہیں دیئے گئے ان میں سے بیشتر نے ہدایات کے باؤجود اپنے کاغذات نامزدگی واپس نہیں لئے اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لیا اتحاد کا بہت سا اہم وقت ٹکٹوں کی تقسیم میں صرف ہوگیا۔



۔* جاگ پنجابی جاگ *۔

قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی سے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے مخالف عناصر شدید اضطراب کا شکار ہوگئے۔ پہلے اتحاد کی پبلیسٹی مہم میں پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کو ہدف بنایا گیا تھا لیکن اب پنجاب کے ووٹروں کو اس خطرے سے آگاہ کیا گیا کہ اگر پیپلز پارٹی پنجاب اسمبلی کے انتخابات بھی جیت گئی اور اس کی حکومت بھی قائم ہوگئی تو پھر کسی پنجابی کی عزت و آبرو محفوظ نہیں رہے گی وہ ان سے بھر پور انتقام لے گی ۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد صوبائی انتخابات میں تین دن کا وقفہ تھا ۔ اس دوران نواز شریف نے پورے صوبے میں بھر پور تحریک چلائی ۔ پیپلز پارٹی کا مخالف عنصر پوری طرح متحرک ہو گیا ۔ اس دوران پورے صوبے میں ’’جاگ پنجابی جاگ ‘‘ کا نعرہ گونجتا رہا ۔ ووٹروں کی بری تعداد اس موقف کی حامی نظر آنے لگی کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت تشکیل پانا گوارا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ (12)


)...حوالہ جات...(


1) ( انٹرویونوابزادہ نصراللہ خان صفحہ نمبر64کتاب انکشافات۔ مصنف انوار حسین ہاشمی 

(2) نواز شریف ٹیڑھی راہوں کے سیدھے مسافرصفحہ34مصنف سابق آئی جی سردارمحمد چوہدری (3) اس نے کہا/ صفحہ نمبر/112 110 مصنف منیر احمدمنیر

(4) وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نامزدگی سے برطرفی تک/ صفحہ نمبر77 پروفیسر غفور احمد 

(5) وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نامزدگی سے برطرفی تک/ صفحہ نمبر 81 پروفیسر غفور احمد

(6) وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نامزدگی سے برطرفی تک/ صفحہ نمبر 95/94 پروفیسر غفور احمد

(7) ایجنسیوں کی حکومت / صفحہ نمبر26 مصنف اظہر سہیل 
(8) ایجنسیوں کے حکومت/صفحہ نمبر27 مصنف اظہر سہیل
(9) بے نیام تلواریں/ صفحہ نمبر250 مصنف شجاع نواز
(10) وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نامزدگی سے برطرفی تک/صفحہ نمبر102 پروفیسر غفور احمد
(11) ایجنسیوں کے حکومت/صفحہ نمبر32 مصنف اظہر سہیل
(12) وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نامزدگی سے برطرفی تک/صفحہ نمبر122 پروفیسر غفور احمد

No comments:

Post a Comment