غلام اسحاق خان اور نواز شریف
سینٹ کے چیئرمین بننے سے قبل غلام اسحٰق خان بعض ایسے عہدوں پر بھی
فائیز رہے جہاں ملک کے بڑے بڑے تاجر اور صنعت کار ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے اس حوالے سے شریف خاندان اور اتفاق گروپ کا ان کے ساتھ تعلق بہت پرانا تھا درجنوں ایسے کام تھے جن کو کروانے کے لئے شریف خاندان کے افراد دوسرے تاجروں کی مانندان کے دفتر کے چکر لگاتے رہتے تھے سیکرٹری دفاع ہونے کے حوالے سے اور مختلف دفاعی پروڈکشن کے بلوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے بے شمار لوگ کسی نہ کسی طرح ان کے رابطے میں رہتے ہیں شریف خاندان کا بھی فوجی سازو سامان کی تیاری اور اس کی سپلائی کے حوالے سے ان سے رابطہ رہا کرتا تھا اس وقت میاں شریف کی انکساری اور نیاز مندی غلام اسحق خان کو بہت ہی اچھی لگتی تھی۔
سابق صدر غلام اسحٰق خان میاں شریف اور نواز شریف کو اس وقت سے جانتے تھے جب وہ پاکستان کے سیکرٹری خزانہ تھے پاکستان کے سینئرترین بیورو کریٹ تھے مختلف عہدوں پر فائیز رہنے کے بعد جنرل یحییٰ خان کی تمام دور حکومت میں اورذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی دور حکومت میں کیبنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائیز رہے۔
سابق صدر غلام اسحٰق خان میاں شریف اور نواز شریف کو اس وقت سے جانتے تھے جب وہ پاکستان کے سیکرٹری خزانہ تھے پاکستان کے سینئرترین بیورو کریٹ تھے مختلف عہدوں پر فائیز رہنے کے بعد جنرل یحییٰ خان کی تمام دور حکومت میں اورذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی دور حکومت میں کیبنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائیز رہے۔
پھر گورنر اسٹیٹ بینک بنے اس کے بعد وزارت دفاع کے سیکرٹری جنرل بنے پھر جنرل ضیاء کے دور میں سیکرٹری جنرل ان چیف اوردیگر اہم عہدوں پر فائز رہنے کے بعد وزیر خزانہ 1978ئسے مئی 1985ء تک رہے۔(1)مئی 1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں فون کرکے اطلاع دی کہ وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹا کر ملک کے مقتدر ادارے سینیٹ کا چیئرمین بنایا جارہا ہے ۔انہوں نے اسی حیثیت سے 17اگست1988ء کو صدر جنرل ضیاء الحق کے طیارے کی تباہی کے بعد ملک کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا جس کے بعد الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی اور بے نظیر بھٹو حکومت نے ان کی توثیق کردی جس کے نتیجے میں آئندہ پانچ سال کے لئے صدر غلام اسحٰق خان پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔
سینیٹ کے چیئرمین بننے سے قبل غلام اسحٰق خان بعض ایسے عہدوں پر بھی فائیز رہے جہاں ملک کے بڑے بڑے تاجر اور صنعت کار ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے اس حوالے سے شریف خاندان اور اتفاق گروپ کا ان کے ساتھ تعلق بہت پرانا تھا درجنوں ایسے کام تھے جن کو کروانے کے لئے شریف خاندان کے افراد دوسرے تاجروں کی مانندان کے دفتر کے چکر لگاتے رہتے تھے سیکرٹری دفاع ہونے کے حوالے سے اور مختلف دفاعی پروڈکشن کے بلوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے بے شمار لوگ کسی نہ کسی طرح ان کے رابطے میں رہتے ہیں شریف خاندان کا بھی فوجی سازو سامان کی تیاری اور اس کی سپلائی کے حوالے سے ان سے رابطہ رہا کرتا تھا اس وقت میاں شریف کی انکساری اور نیاز مندی غلام اسحق خان کو بہت ہی اچھی لگتی تھی اور وہ شریف خاندان کو اسی طرح ڈیل بھی کرتے تھے بلکے سابق صدر غلام اسحق خان نے اس خاندان کے ساتھ اسوقت بہت کچھ مہربانیاں کیں جب وہ گورنر اسٹیٹ بینک تھے پھر جب وہ وفاقی وزیر خزانہ بنے تو اس وقت بھی ان کی خصو صی نظرکرم اس خاندان پر تھی جس کی بدولت سی بی آر ( اب ایف بی آر) سے اس طرح کے ایس آر او جاری کئے گئے جن کی بدولت اتفاق گروپ کو فائدے پہنچائے گئے غلام اسحق خان 1978ء سے 1985ء تک وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے 1985ء میں غلام اسحق خان کو سینیٹ کا چےئرمین بنا دیا گیا تھا اتفاق گروپ نے چونکہ دولت حاصل کرنے کا راستہ یا طریقہ دریافت کرلیا تھا اس لئے اس خاندان نے ہمیشہ ہی سی بی آر(CBR) اور وزرائے خزانہ سے اچھے تعلقات قائم رکھے یہ الگ بات ہے کہ جب وقت نکل گیا تو اس طرح جان چھڑائی کہ وہ بیچارے منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان کی اس کیفیت اور طرز عمل پر مسلم لیگی رہنما اقبال احمد خان مرحوم نے بہت ہی کھل کر روشنی اس طرح ڈالی ہے۔
سرمایہ دار دو ہو سکتے ہیں INDUSTRIAST(صنعت کار)BIG BUSINESS MAGANATE بڑے بڑے ۔ ان کی نیچر کیا ہوتی ہے ۔ سیٹھ صاحب دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ائیر کنڈیشنڈ چل رہا ہے ۔ قالین بچھے ہوئے ہیں نوکر چاکر ۔ بندہ آگیا ہے میٹر پڑھنے والا ، کلرک۔ وہ جو بھی ہے چوکیدار کہتا ہے جی وہ آگیا ہے میٹر ریڈر۔ سیٹھ صاحب نے اس سے میٹر پیچھے کرانا ہے سیٹھ صاحب وہاں سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں اور اسے ساتھ لے کے اندر آتے ہیں ۔ اسے اپنے پاس بیٹھا کے گھنٹی بجائیں گے چائے پیسٹری آجائے گی ۔ پھر چلتے چلتے ہزار پانچ سو اس کی جیب میں ڈالیں گے ۔ سوئی میٹر کی الٹی ہوجائے گی ۔سال بعدچھ ماہ بعد وہ میٹر ریڈر ٹرانسفر ہوجاتا ہے دوسرا آجاتا ہے دوسرے کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا ہے ۔ اس دوران میں وہ پرانا میٹر ریڈر سائیکل پر سوار جارہا ہے کارخانہ آگیا وہ کھڑا ہو گیا ۔ چوکیدار سے پوچھتاہے ‘؟ سیٹھ صاحب ہیں وہ اس سے پوچھتا ہے ‘ کیا کام ہے ۔ وہ کہتا ہے ‘ یار انہیں سلام ہی کرلیں ۔ چپراسی جا کے سیٹھ صاحب کو کہتا ہے ‘ جناب نور محمد آیا ہے ۔ سیٹھ صاحب کہتے ہیں ‘ کیہڑا نور محمد؟ وہ کہتا ہے وہ جی میٹر ریڈر ہوتا تھا ۔ سیٹھ صاحب کہتے ہیں ‘اسے کہو‘ آج فارغ نہیں ہوں ۔ بڑے بزنس مین کے پاس انکم ٹیکس کا کلرک آگیا یا چپراسی آجاتا ہے ۔ سیٹھ صاحب آپ کو چھوڑ کر اس کی خوشامد میں لگے ہوں گے ۔ مسلم لیگی رہنما اقبال احمد خان مرحوم نے دراصل اس طرح کھل کر میاں نواز شریف کی فکر اور سوچ کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔(2)
صدر غلام اسحق خان ماضی کے حوالے سے شریف خاندان کے بارے میں اچھی توقعات رکھتے تھے اگر چے کہ ان کو بعض لوگوں کی جانب سے متوجے بھی کیا گیا مگر صدر غلام اسحق خان نے ان باتوں کو رد کیا جیسا کہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم جام صادق نے ایک موقع پر (جب میاں نواز شریف نے وزارت اعظمیٰ کے عہدے کا چارج سنبھالا تھا اس وقت کے صدر غلام اسحق خان سے کہا تھا جناب میں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے منافق اور دوغلے لوگ دیکھے ہیں مگر میاں نواز شریف سے زیادہ خطرناک آدمی آج تک میری نظر سے نہیں گزرا ہے میں آپ کو متنبہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اپنے اس وزیر اعظم سے ہوشیار رہیے گا یہ شخص کسی بھی موقع پر آپ سے ایسی نظریں پھیرے گا کہ آپ دیکھتے رہ جائیں گے اس پر صدر غلام اسحاق خان نے برافروختہ ہو کر جواب دیا ’’ جام صاحب آپ ایک طویل عرصہ تک ملک سے باہر رہے ہیں آپ میاں صاحب کو نہیں جانتے ،’’وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی رائے تبدیل ہو جائے گی ‘‘ اس پر جام صاحب نے صرف اتنا جواب دیا ،’’ جناب اللہ کرے ، میری رائے غلط ہو مگر آپ پھر بھی احتیاط کیجیے گا ‘‘
سینیٹ کے چیئرمین بننے سے قبل غلام اسحٰق خان بعض ایسے عہدوں پر بھی فائیز رہے جہاں ملک کے بڑے بڑے تاجر اور صنعت کار ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے اس حوالے سے شریف خاندان اور اتفاق گروپ کا ان کے ساتھ تعلق بہت پرانا تھا درجنوں ایسے کام تھے جن کو کروانے کے لئے شریف خاندان کے افراد دوسرے تاجروں کی مانندان کے دفتر کے چکر لگاتے رہتے تھے سیکرٹری دفاع ہونے کے حوالے سے اور مختلف دفاعی پروڈکشن کے بلوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے بے شمار لوگ کسی نہ کسی طرح ان کے رابطے میں رہتے ہیں شریف خاندان کا بھی فوجی سازو سامان کی تیاری اور اس کی سپلائی کے حوالے سے ان سے رابطہ رہا کرتا تھا اس وقت میاں شریف کی انکساری اور نیاز مندی غلام اسحق خان کو بہت ہی اچھی لگتی تھی اور وہ شریف خاندان کو اسی طرح ڈیل بھی کرتے تھے بلکے سابق صدر غلام اسحق خان نے اس خاندان کے ساتھ اسوقت بہت کچھ مہربانیاں کیں جب وہ گورنر اسٹیٹ بینک تھے پھر جب وہ وفاقی وزیر خزانہ بنے تو اس وقت بھی ان کی خصو صی نظرکرم اس خاندان پر تھی جس کی بدولت سی بی آر ( اب ایف بی آر) سے اس طرح کے ایس آر او جاری کئے گئے جن کی بدولت اتفاق گروپ کو فائدے پہنچائے گئے غلام اسحق خان 1978ء سے 1985ء تک وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے 1985ء میں غلام اسحق خان کو سینیٹ کا چےئرمین بنا دیا گیا تھا اتفاق گروپ نے چونکہ دولت حاصل کرنے کا راستہ یا طریقہ دریافت کرلیا تھا اس لئے اس خاندان نے ہمیشہ ہی سی بی آر(CBR) اور وزرائے خزانہ سے اچھے تعلقات قائم رکھے یہ الگ بات ہے کہ جب وقت نکل گیا تو اس طرح جان چھڑائی کہ وہ بیچارے منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان کی اس کیفیت اور طرز عمل پر مسلم لیگی رہنما اقبال احمد خان مرحوم نے بہت ہی کھل کر روشنی اس طرح ڈالی ہے۔
سرمایہ دار دو ہو سکتے ہیں INDUSTRIAST(صنعت کار)BIG BUSINESS MAGANATE بڑے بڑے ۔ ان کی نیچر کیا ہوتی ہے ۔ سیٹھ صاحب دفتر میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ائیر کنڈیشنڈ چل رہا ہے ۔ قالین بچھے ہوئے ہیں نوکر چاکر ۔ بندہ آگیا ہے میٹر پڑھنے والا ، کلرک۔ وہ جو بھی ہے چوکیدار کہتا ہے جی وہ آگیا ہے میٹر ریڈر۔ سیٹھ صاحب نے اس سے میٹر پیچھے کرانا ہے سیٹھ صاحب وہاں سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں اور اسے ساتھ لے کے اندر آتے ہیں ۔ اسے اپنے پاس بیٹھا کے گھنٹی بجائیں گے چائے پیسٹری آجائے گی ۔ پھر چلتے چلتے ہزار پانچ سو اس کی جیب میں ڈالیں گے ۔ سوئی میٹر کی الٹی ہوجائے گی ۔سال بعدچھ ماہ بعد وہ میٹر ریڈر ٹرانسفر ہوجاتا ہے دوسرا آجاتا ہے دوسرے کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوتا ہے ۔ اس دوران میں وہ پرانا میٹر ریڈر سائیکل پر سوار جارہا ہے کارخانہ آگیا وہ کھڑا ہو گیا ۔ چوکیدار سے پوچھتاہے ‘؟ سیٹھ صاحب ہیں وہ اس سے پوچھتا ہے ‘ کیا کام ہے ۔ وہ کہتا ہے ‘ یار انہیں سلام ہی کرلیں ۔ چپراسی جا کے سیٹھ صاحب کو کہتا ہے ‘ جناب نور محمد آیا ہے ۔ سیٹھ صاحب کہتے ہیں ‘ کیہڑا نور محمد؟ وہ کہتا ہے وہ جی میٹر ریڈر ہوتا تھا ۔ سیٹھ صاحب کہتے ہیں ‘اسے کہو‘ آج فارغ نہیں ہوں ۔ بڑے بزنس مین کے پاس انکم ٹیکس کا کلرک آگیا یا چپراسی آجاتا ہے ۔ سیٹھ صاحب آپ کو چھوڑ کر اس کی خوشامد میں لگے ہوں گے ۔ مسلم لیگی رہنما اقبال احمد خان مرحوم نے دراصل اس طرح کھل کر میاں نواز شریف کی فکر اور سوچ کا پوسٹ مارٹم کیا ہے۔(2)
صدر غلام اسحق خان ماضی کے حوالے سے شریف خاندان کے بارے میں اچھی توقعات رکھتے تھے اگر چے کہ ان کو بعض لوگوں کی جانب سے متوجے بھی کیا گیا مگر صدر غلام اسحق خان نے ان باتوں کو رد کیا جیسا کہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم جام صادق نے ایک موقع پر (جب میاں نواز شریف نے وزارت اعظمیٰ کے عہدے کا چارج سنبھالا تھا اس وقت کے صدر غلام اسحق خان سے کہا تھا جناب میں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے منافق اور دوغلے لوگ دیکھے ہیں مگر میاں نواز شریف سے زیادہ خطرناک آدمی آج تک میری نظر سے نہیں گزرا ہے میں آپ کو متنبہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اپنے اس وزیر اعظم سے ہوشیار رہیے گا یہ شخص کسی بھی موقع پر آپ سے ایسی نظریں پھیرے گا کہ آپ دیکھتے رہ جائیں گے اس پر صدر غلام اسحاق خان نے برافروختہ ہو کر جواب دیا ’’ جام صاحب آپ ایک طویل عرصہ تک ملک سے باہر رہے ہیں آپ میاں صاحب کو نہیں جانتے ،’’وقت کے ساتھ ساتھ آپ کی رائے تبدیل ہو جائے گی ‘‘ اس پر جام صاحب نے صرف اتنا جواب دیا ،’’ جناب اللہ کرے ، میری رائے غلط ہو مگر آپ پھر بھی احتیاط کیجیے گا ‘‘
۔(3)
سابق صدر غلام اسحاق نے اس وقت مرحوم جام صادق کی ان باتوں کا بہت برا منایاتھاانہوں نے مرحوم جام صادق کومزید بات کرنے سے منہ کردیا تھا (کیونکہ ان کا سابقہ اس خاندان سے کئی عشروں سے پڑتا رہا تھا اس وقت اس خاندان کے افراد چونکہ پرمٹوں، لائسنسوں اور اپنے اوپر عائد ہونے والے ٹیکسوں اور دیگر کاموں کے لئے غلام اسحق خان کے پاس نیاز مندانہ اورفرمانبردارانہ انداز میں آتے تھے اس وقت وہ سائل ہوتے تھے جبکہ غلام اسحق خان مطلوب یعنی یا تو غلام اسحٰق خان ڈیفنس کے سیکرٹری جنرل یاگورنر اسٹیٹ بینک یا پھر پاکستان کے وزیر خزانہ تھے ان دنوں یہ خاندان اپنے مالی مسائل کو حل کروانے کے لئے ان کے پاس آتا تھا تو یہ حد سے زیادہ انکساری کا ثبوت دیتے تھے اسی روپ سے غلام اسحٰق خان واقف تھے مگر اتفاق گروپ کے مالکان کے اس روپ سے وہ واقف نہیں تھے جس سے اتفاق گروپ کے ورکر ز اور مزدورواقف تھے اس لئے غلام اسحق اس خاندان کے تیوراور اطوار سے واقف نہیں ہو سکے سادہ لوح غلام اسحق خان ان کو دیگر تاجروں سے زیادہ اچھا سمجھتے تھے ان پر تو اس خاندان اور اس کے ہونہار کے اطوار اس وقت ظاہر ہوئے جب وزیر اعظم ہاؤس کو اس خاندان نے اپنا گھر بنا لیا مگر اس گھر کو وہ عارضی گھر سمجھنے کے لئے تیارنہیں تھے بلکے اس گھر کو مستقل گھر بنانے کے لئے کوشاں تھے اسی مقصد کے لئے انہوں نے اپنی روایات کے مطابق اپنے مربی غلام اسحق خان کو بھی راستے کی دیوار جانا تو ان کے خلاف مہم چلادی اس حوالے سے انہوں نے اپنے تمام سابقہ روابط اور قرابت داری کو نظر انداز کر دیا کیونکہ اصولوں اور ضابطوں کے پابند غلام اسحق خان تاجر میاں نواز شریف کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے جب بھی اصولوں کے خلاف کوئی بات کی جاتی تو ایوان صدر کی جانب سے سخت ترین مزاحمت کی جاتی تھی۔
روئداد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کے آپس کے تعلقات کم از کم سال بھر تک خوش گوار نظر آئے دسمبر 1991ئمیں ہمیں پہلی بار کچھ گڑ بڑ محسوس ہوئی ہوا یوں کے صدر غلام اسحق خان پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے ، بے نظیر صدر کو لعن طعن کا نشانہ بنا رہیں تھیں اور بابا جا ، باباجا کے حقارت آمیز نعرے لگا رہی تھیں بے نظیر کی تقلید میں پوری حزبِ اختلاف اسی قسم کی حرکتیں کررہی تھی گیلری میں بیٹھے سفارتی نمائندے ، بری بحری ، فضائی افواج کے سربراہ ، قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندے سب یہ منظر دیکھ رہے تھے لیکن نواز شریف یا ان کی حزب اقتدار نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ ایک طرح سے تماشائی بنے ہوئے تھے۔ (4)
نواز شریف نے اپنے تعلقات صدر سے اس قدر کشیدہ کرلئے تھے کہ اب ماضی کے حلیف حال و مستقبل کے بدترین دشمن بن گئے تھے نواز شریف اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنی سب سے بڑی قوت اسلامی جمہوری اتحاد کا تو خود ہی خاتمہ کرچکے تھے جس جماعت کی قیادت کے دعویٰ دار وہ تھے اس کو بھی اپنی ناسمجھی اور جلد بازی کے نتیجے میں خود ہی دو ٹکڑے کر بیٹھے تھے اس صورت میں اب نواز شریف کے پاس جو بھی قوت تھی و ہ لنگڑی لولی یا ادھوری قوت تھی اور اس قوت کی بنیاد پر وہ مسلم لیگی صدر غلام اسحاق کے خلاف بھی محاز کھول بیٹھے جس کے نتیجے میں منقسم مسلم لیگ مزید تقسیم ہوگئی ایک جانب توصورت حال اس طرح کی تھی کہ سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد صوبہ سندھ اور صوبہ سرحد کی حکومتیں اور وزرائے اعلیٰ سب نواز شریف کے مخالف دھڑے کا حصہ بنے ہوئے تھے دوسری جانب پنجاب جو نواز شریف کا اپنا صوبہ تھا اس کی کیفیت اس طرح کی تھی کہ مختلف اراکین اسمبلی تیزی کے ساتھ ٹوٹ کر حامد ناصر چٹھہ کے ساتھ ملتے جارہے تھے ۔
اسی دوران18 اپریل کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑ کر قومی و صوبائی حکومتوں کے خاتمے کا صدارتی آرڈر جاری کردیا اس اعلان کے نتیجے میں عبوری وزیر اعظم بلخ شیر مزاری نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا ان کی کابینہ کے اہم اراکین میں نواز شریف کی مسلم لیگ کے مخالف دھڑے کے اہم رہنماء حامد ناصر چٹھہ اور پیپلز پارٹی کے فاروق احمد لغاری شامل تھے۔
مگر صدر غلام اسحاق خان کے اس آرڈر کو 22مئی 1993 ء کو سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے سے رد کردیا اور یوں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں بھی بحال ہو گئیں اس کے ساتھ ساتھ بلخ شیر مزاری کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا سپریم کورٹ کے اس حکم کے نتیجے میں جہاں نواز شریف حکومت بحال ہوئی وہیں پاکستان میں ایک نیا آئین و سیاسی بحران شروع ہوگیا یہ ایسا بحران تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کے تمام معاملات تلپٹ ہوتے دکھائی دینے لگے اگر چہ کے قومی اسمبلی بحال ہو چکی تھی مگرپنجاب کے صوبائی وزیر اعلیٰ منظور حسین وٹو اور گورنر الطاف حسین جونیجو مسلم لیگ سے تعلق رکھنے کے باعث نواز شریف کے مخالفین میں سے تھے اور صوبے میں نواز شریف حکومت کو کسی بھی طرح سے نہیں چلنے دے رہے تھے اس کی ایک جھلک کچھ یوں ہے ۔
28جون 1993ء کو لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کی بحالی کا حکم سنایا ، اس حکم کے سنائے جانے کے سات منٹ کے اندر اندرمنظور وٹو نے گورنر پنجاب کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دوبارہ دیدیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کو دوسری بار بھی صدر کی ایما سے توڑا گیا تھا یہ تاثر غلط ہے ۔ صدر پنجاب اسمبلی دوبارہ توڑنے کے مخالف تھے ۔ پنجاب اسمبلی دوبارہ توڑنے کی اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کی تمام طر ذمہ داری منظور وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب اور چوہدری الطاف حسین گورنر پنجاب کی تھی۔ (5)
29 جون 1993ء کو محمد نواز شریف ( وزیر اعظم ) غلام اسحاق خان ( صدر)سے ایوان صدر میں ملے اور پنجاب کے گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کیالیکن صدرنے جواب میں مکمل خاموشی اختیار کی۔
روز بروز بحران زیادہ سے زیادہ سنگین ہوتا جارہا تھا ، مفاہمت و مصالحت کے کوئی آثار نہیں نظر آرہے تھے ۔ چنانچہ میں(روئداد خان) سب ہنگاموں سے دور نتھیا گلی چلا گیا ۔ نتھیا گلی ایک صحت افزا مقام ہے اور کار میں اسلام آباد سے نتھیا گلی پہنچنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں ۔ میں جولائی 1993 ء کے پہلے ہفتے میں نتھیا گلی میں تھا کہ مجھ کو آرمی چیف کی طرف سے پیغام ملا کہ آج آپ سہہ پہر پانچ بجے آرمی چیف سے آرمی ہاؤس میں ملیں ، چار بج کر پچاس منٹ پر جب میں آرمی ہاوس راولپنڈی کے قریب پہنچا تو آرمی چیف کے پرنسپل آفیسر مجھ کو آرمی ہاؤس لے جانے کے بجائے اپنے گھر لے گئے۔ میں خاصہ پریشان ہوا کہ آخر ماجرا کیا ہے ؟ مجھ سے کہا یہ گیا کہ آرمی چیف کانفرنس میں مصروف ہیں جیسے ہی فارغ ہوتے ہیں آپ سے ملیں گے۔
میں سوچنے لگا کہ مجھے انتظار ہی کرنا تھا تو وہ تو آرمی ہاؤس میں بھی ہو سکتا ہے،مجھے آرمی چیف کے پرنسپل اسٹاف افیسر کے گھر کیوں لایا گیا ہے ؟ کیا آرمی چیف مجھ سے ملاقات کو کور کمانڈروں سے مخفی تو نہیں رکھنا چاہتے؟آج تک مجھے ان سوالات کے جواب نہیں ملے ۔ دس منٹ کے بعد معلوم ہوا کہ کانفرنس ختم ہوگئی ہے ۔ میں آرمی ہاؤس میں آرمی چیف سے ملا آرمی چیف نے مجھ سے کہا کہ :
’’ میں نے ملک کے سیاسی بحران کے بارے میں سب کور کمانڈروں سے مشورہ کیا سب کا یہی مشورہ ہے کہ وزیر اعظم(نواز شریف) اور صدر ( غلام اسحاق خان ) کو مشورہ دیں کہ :
Z سب قومی اورصوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔
Z سب حکومتیں (وفاقی اور صوبائی ) برطرف کردی جائیں۔
Z نگراں حکومت کے تحت نئے عام انتخابات کروائے جائیں۔
Z محمد نواز شریف نگراں حکومت کے سربراہ ہوں ۔
آدھی رات کو چیف آف اسٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ آئے اور مجھ کو بتلایا کہ : میں نے سوچا کہ صدر سے ملنے سے پہلے وزیر اعظم سے بھی مل لوں تاکہ کور کمانڈروں کے تجویز کردہ فارمولے کو وزیر اعظم کی تائید بھی حاصل ہو جائے ۔ لیکن وزیراعظم نے کچھ کہنے سے پہلے لاہور میں اپنے ’’ابا جی سے مشورہ ضروری سمجھا ۔ چنانچہ صدر سے ہماری ملاقات نہ ہو پائی اور وحید فارمولا آغاز سے پہلے ہی انجام کو پہنچ گیا یعنی خود بخود ختم ہوگیا۔
آرمی چیف کا خیال تھا کہ مندرجہ بالا منصوبہ لے کر وہ اور میں صدر سے ایک ساتھ ملیں اور یہ کہ ملاقات کے دوران وہ تو خاموش رہیں گے اور ساری باتیں میں کردوں گا ۔ میں نے کچھ اعتراضات اٹھائے لیکن آرمی چیف نے کہا ان سب کا بھی کچھ کرلیں گے ۔ انہوں نے کہا ’’ میں صدر سے ملاقات کا وقت شام کے آٹھ بجے مانگوں گا ‘‘ اور آرمی ہاؤس راولپنڈی سے ایوان صدر اسلام آباد جاتے ہوئے تمہیں تمہارے گھر سے لے لوں گا ۔ میں شام بھر انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہ آئے وہ آئے تو آدھی رات کو آئے اور مجھ کو بتلایا کہ : میں نے سوچا صدر سے ملنے سے پہلے وزیر اعظم سے بھی مل لوں تاکہ کور کمانڈروں کے تجویز کردہ فارمولے کو وزیر اعظم کی تائید بھی حاصل ہو جائے ۔ لیکن وزیراعظم نے کچھ کہنے سے پہلے لاہور میں اپنے ’’ابا جی سے مشورہ ضروری سمجھا ۔ چنانچہ صدر سے ہماری ملاقات نہ ہو پائی اور وحید فارمولا آغاز سے پہلے ہی انجام کو پہنچ گیا یعنی خود بخود ختم ہوگیا۔ (6)
سیاسی گتھی سلجھنے کے جب کئی آثار نظر نہ آئے تو اسلامی دینی اتحاد کا ایک وفد مولانا سمیع الحق کی سرکردگی میں ایوانِ صدر اسلام آباد میں صدر سے ملا وفد کا خیال تھا کہ اگر صدر اور وزیر اعظم ایک دوسرے سے ملنے پر آمادہ ہوجائیں تو سیاسی مسئلہ کا کوئی حل نکل آئے، صدر نے وفد سے کہا۔
مولانا سمیع الحق نے صدر سے کہا ’’ نواز شریف اس وقت تک عام انتخابات نہیں چاہتے جب تک آپ صدر ہیں ’’ صدر غلام اسحاق خان نے جواب دیا اگر صدارت سے میری دست برداری سے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوتی ہے تو میں اس کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف خود بھی وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں تاکہ عام انتخابات ایک غیر جانبدارحکومت کی نگرانی میں ہوں۔ محمد نواز شریف کو صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ خود سے دینا ہو‘‘
’’ وزیر اعظم سے میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن حزب اختلاف کی متفقہ رائے ہے کہ سیاسی مسئلے کے حل کے لئے عام انتخابات کا فی الفور کرایا جانا ضروری ہے ۔ وزیر اعظم کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں حزب اختلاف سے بات کریں ۔‘‘
اس پر مولانا سمیع الحق نے صدر سے کہا ’’ نواز شریف اس وقت تک عام انتخابات نہیں چاہتے جب تک آپ صدر ہیں ’’ صدر غلام اسحاق خان نے جواب دیا اگر صدارت سے میری دست برداری سے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوتی ہے تو میں اس کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف خود بھی وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں تاکہ عام انتخابات ایک غیر جانبدارحکومت کی نگرانی میں ہوں۔ محمد نواز شریف کو صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دینا ہوگا‘‘۔(7)
12جولائی کو مولانا سمیع الحق کے ذریعہ میاں نواز شریف نے صدر مملکت سے ملاقات کی اللہ اللہ کہاں تو یہ احوال تھا ‘‘ میں کسی بھی قیمت پر صدر سے ملنے نہیں جاؤں گا ‘‘ اور کہاں یہ حالت کہ مولانا سمیع الحق کے ذریعے سلسلہ جنبانی شروع کے یہ گویا وقت دعا کی آمد کا اشارہ تھا ۔اس ملاقات کے دوران مولانا سمیع الحق نے صدر غلام صدارت کا نہیں بلکہ پوری قوم دوبارہ عام انتخابات مانگ رہی ہے۔
سابق صدر غلام اسحاق نے اس وقت مرحوم جام صادق کی ان باتوں کا بہت برا منایاتھاانہوں نے مرحوم جام صادق کومزید بات کرنے سے منہ کردیا تھا (کیونکہ ان کا سابقہ اس خاندان سے کئی عشروں سے پڑتا رہا تھا اس وقت اس خاندان کے افراد چونکہ پرمٹوں، لائسنسوں اور اپنے اوپر عائد ہونے والے ٹیکسوں اور دیگر کاموں کے لئے غلام اسحق خان کے پاس نیاز مندانہ اورفرمانبردارانہ انداز میں آتے تھے اس وقت وہ سائل ہوتے تھے جبکہ غلام اسحق خان مطلوب یعنی یا تو غلام اسحٰق خان ڈیفنس کے سیکرٹری جنرل یاگورنر اسٹیٹ بینک یا پھر پاکستان کے وزیر خزانہ تھے ان دنوں یہ خاندان اپنے مالی مسائل کو حل کروانے کے لئے ان کے پاس آتا تھا تو یہ حد سے زیادہ انکساری کا ثبوت دیتے تھے اسی روپ سے غلام اسحٰق خان واقف تھے مگر اتفاق گروپ کے مالکان کے اس روپ سے وہ واقف نہیں تھے جس سے اتفاق گروپ کے ورکر ز اور مزدورواقف تھے اس لئے غلام اسحق اس خاندان کے تیوراور اطوار سے واقف نہیں ہو سکے سادہ لوح غلام اسحق خان ان کو دیگر تاجروں سے زیادہ اچھا سمجھتے تھے ان پر تو اس خاندان اور اس کے ہونہار کے اطوار اس وقت ظاہر ہوئے جب وزیر اعظم ہاؤس کو اس خاندان نے اپنا گھر بنا لیا مگر اس گھر کو وہ عارضی گھر سمجھنے کے لئے تیارنہیں تھے بلکے اس گھر کو مستقل گھر بنانے کے لئے کوشاں تھے اسی مقصد کے لئے انہوں نے اپنی روایات کے مطابق اپنے مربی غلام اسحق خان کو بھی راستے کی دیوار جانا تو ان کے خلاف مہم چلادی اس حوالے سے انہوں نے اپنے تمام سابقہ روابط اور قرابت داری کو نظر انداز کر دیا کیونکہ اصولوں اور ضابطوں کے پابند غلام اسحق خان تاجر میاں نواز شریف کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے جب بھی اصولوں کے خلاف کوئی بات کی جاتی تو ایوان صدر کی جانب سے سخت ترین مزاحمت کی جاتی تھی۔
روئداد خان اپنی کتاب میں لکھتے ہیں صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم محمد نواز شریف کے آپس کے تعلقات کم از کم سال بھر تک خوش گوار نظر آئے دسمبر 1991ئمیں ہمیں پہلی بار کچھ گڑ بڑ محسوس ہوئی ہوا یوں کے صدر غلام اسحق خان پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے ، بے نظیر صدر کو لعن طعن کا نشانہ بنا رہیں تھیں اور بابا جا ، باباجا کے حقارت آمیز نعرے لگا رہی تھیں بے نظیر کی تقلید میں پوری حزبِ اختلاف اسی قسم کی حرکتیں کررہی تھی گیلری میں بیٹھے سفارتی نمائندے ، بری بحری ، فضائی افواج کے سربراہ ، قومی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے نمائندے سب یہ منظر دیکھ رہے تھے لیکن نواز شریف یا ان کی حزب اقتدار نے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہ کی بلکہ ایک طرح سے تماشائی بنے ہوئے تھے۔ (4)
نواز شریف نے اپنے تعلقات صدر سے اس قدر کشیدہ کرلئے تھے کہ اب ماضی کے حلیف حال و مستقبل کے بدترین دشمن بن گئے تھے نواز شریف اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنی سب سے بڑی قوت اسلامی جمہوری اتحاد کا تو خود ہی خاتمہ کرچکے تھے جس جماعت کی قیادت کے دعویٰ دار وہ تھے اس کو بھی اپنی ناسمجھی اور جلد بازی کے نتیجے میں خود ہی دو ٹکڑے کر بیٹھے تھے اس صورت میں اب نواز شریف کے پاس جو بھی قوت تھی و ہ لنگڑی لولی یا ادھوری قوت تھی اور اس قوت کی بنیاد پر وہ مسلم لیگی صدر غلام اسحاق کے خلاف بھی محاز کھول بیٹھے جس کے نتیجے میں منقسم مسلم لیگ مزید تقسیم ہوگئی ایک جانب توصورت حال اس طرح کی تھی کہ سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد صوبہ سندھ اور صوبہ سرحد کی حکومتیں اور وزرائے اعلیٰ سب نواز شریف کے مخالف دھڑے کا حصہ بنے ہوئے تھے دوسری جانب پنجاب جو نواز شریف کا اپنا صوبہ تھا اس کی کیفیت اس طرح کی تھی کہ مختلف اراکین اسمبلی تیزی کے ساتھ ٹوٹ کر حامد ناصر چٹھہ کے ساتھ ملتے جارہے تھے ۔
اسی دوران18 اپریل کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی و صوبائی اسمبلیاں توڑ کر قومی و صوبائی حکومتوں کے خاتمے کا صدارتی آرڈر جاری کردیا اس اعلان کے نتیجے میں عبوری وزیر اعظم بلخ شیر مزاری نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا ان کی کابینہ کے اہم اراکین میں نواز شریف کی مسلم لیگ کے مخالف دھڑے کے اہم رہنماء حامد ناصر چٹھہ اور پیپلز پارٹی کے فاروق احمد لغاری شامل تھے۔
مگر صدر غلام اسحاق خان کے اس آرڈر کو 22مئی 1993 ء کو سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے سے رد کردیا اور یوں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں بھی بحال ہو گئیں اس کے ساتھ ساتھ بلخ شیر مزاری کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا سپریم کورٹ کے اس حکم کے نتیجے میں جہاں نواز شریف حکومت بحال ہوئی وہیں پاکستان میں ایک نیا آئین و سیاسی بحران شروع ہوگیا یہ ایسا بحران تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کے تمام معاملات تلپٹ ہوتے دکھائی دینے لگے اگر چہ کے قومی اسمبلی بحال ہو چکی تھی مگرپنجاب کے صوبائی وزیر اعلیٰ منظور حسین وٹو اور گورنر الطاف حسین جونیجو مسلم لیگ سے تعلق رکھنے کے باعث نواز شریف کے مخالفین میں سے تھے اور صوبے میں نواز شریف حکومت کو کسی بھی طرح سے نہیں چلنے دے رہے تھے اس کی ایک جھلک کچھ یوں ہے ۔
28جون 1993ء کو لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب اسمبلی کی بحالی کا حکم سنایا ، اس حکم کے سنائے جانے کے سات منٹ کے اندر اندرمنظور وٹو نے گورنر پنجاب کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دوبارہ دیدیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی کو دوسری بار بھی صدر کی ایما سے توڑا گیا تھا یہ تاثر غلط ہے ۔ صدر پنجاب اسمبلی دوبارہ توڑنے کے مخالف تھے ۔ پنجاب اسمبلی دوبارہ توڑنے کی اور اس کے صحیح یا غلط ہونے کی تمام طر ذمہ داری منظور وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب اور چوہدری الطاف حسین گورنر پنجاب کی تھی۔ (5)
29 جون 1993ء کو محمد نواز شریف ( وزیر اعظم ) غلام اسحاق خان ( صدر)سے ایوان صدر میں ملے اور پنجاب کے گورنر کی برطرفی کا مطالبہ کیالیکن صدرنے جواب میں مکمل خاموشی اختیار کی۔
روز بروز بحران زیادہ سے زیادہ سنگین ہوتا جارہا تھا ، مفاہمت و مصالحت کے کوئی آثار نہیں نظر آرہے تھے ۔ چنانچہ میں(روئداد خان) سب ہنگاموں سے دور نتھیا گلی چلا گیا ۔ نتھیا گلی ایک صحت افزا مقام ہے اور کار میں اسلام آباد سے نتھیا گلی پہنچنے میں دو گھنٹے لگتے ہیں ۔ میں جولائی 1993 ء کے پہلے ہفتے میں نتھیا گلی میں تھا کہ مجھ کو آرمی چیف کی طرف سے پیغام ملا کہ آج آپ سہہ پہر پانچ بجے آرمی چیف سے آرمی ہاؤس میں ملیں ، چار بج کر پچاس منٹ پر جب میں آرمی ہاوس راولپنڈی کے قریب پہنچا تو آرمی چیف کے پرنسپل آفیسر مجھ کو آرمی ہاؤس لے جانے کے بجائے اپنے گھر لے گئے۔ میں خاصہ پریشان ہوا کہ آخر ماجرا کیا ہے ؟ مجھ سے کہا یہ گیا کہ آرمی چیف کانفرنس میں مصروف ہیں جیسے ہی فارغ ہوتے ہیں آپ سے ملیں گے۔
میں سوچنے لگا کہ مجھے انتظار ہی کرنا تھا تو وہ تو آرمی ہاؤس میں بھی ہو سکتا ہے،مجھے آرمی چیف کے پرنسپل اسٹاف افیسر کے گھر کیوں لایا گیا ہے ؟ کیا آرمی چیف مجھ سے ملاقات کو کور کمانڈروں سے مخفی تو نہیں رکھنا چاہتے؟آج تک مجھے ان سوالات کے جواب نہیں ملے ۔ دس منٹ کے بعد معلوم ہوا کہ کانفرنس ختم ہوگئی ہے ۔ میں آرمی ہاؤس میں آرمی چیف سے ملا آرمی چیف نے مجھ سے کہا کہ :
’’ میں نے ملک کے سیاسی بحران کے بارے میں سب کور کمانڈروں سے مشورہ کیا سب کا یہی مشورہ ہے کہ وزیر اعظم(نواز شریف) اور صدر ( غلام اسحاق خان ) کو مشورہ دیں کہ :
Z سب قومی اورصوبائی اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔
Z سب حکومتیں (وفاقی اور صوبائی ) برطرف کردی جائیں۔
Z نگراں حکومت کے تحت نئے عام انتخابات کروائے جائیں۔
Z محمد نواز شریف نگراں حکومت کے سربراہ ہوں ۔
آدھی رات کو چیف آف اسٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ آئے اور مجھ کو بتلایا کہ : میں نے سوچا کہ صدر سے ملنے سے پہلے وزیر اعظم سے بھی مل لوں تاکہ کور کمانڈروں کے تجویز کردہ فارمولے کو وزیر اعظم کی تائید بھی حاصل ہو جائے ۔ لیکن وزیراعظم نے کچھ کہنے سے پہلے لاہور میں اپنے ’’ابا جی سے مشورہ ضروری سمجھا ۔ چنانچہ صدر سے ہماری ملاقات نہ ہو پائی اور وحید فارمولا آغاز سے پہلے ہی انجام کو پہنچ گیا یعنی خود بخود ختم ہوگیا۔
آرمی چیف کا خیال تھا کہ مندرجہ بالا منصوبہ لے کر وہ اور میں صدر سے ایک ساتھ ملیں اور یہ کہ ملاقات کے دوران وہ تو خاموش رہیں گے اور ساری باتیں میں کردوں گا ۔ میں نے کچھ اعتراضات اٹھائے لیکن آرمی چیف نے کہا ان سب کا بھی کچھ کرلیں گے ۔ انہوں نے کہا ’’ میں صدر سے ملاقات کا وقت شام کے آٹھ بجے مانگوں گا ‘‘ اور آرمی ہاؤس راولپنڈی سے ایوان صدر اسلام آباد جاتے ہوئے تمہیں تمہارے گھر سے لے لوں گا ۔ میں شام بھر انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہ آئے وہ آئے تو آدھی رات کو آئے اور مجھ کو بتلایا کہ : میں نے سوچا صدر سے ملنے سے پہلے وزیر اعظم سے بھی مل لوں تاکہ کور کمانڈروں کے تجویز کردہ فارمولے کو وزیر اعظم کی تائید بھی حاصل ہو جائے ۔ لیکن وزیراعظم نے کچھ کہنے سے پہلے لاہور میں اپنے ’’ابا جی سے مشورہ ضروری سمجھا ۔ چنانچہ صدر سے ہماری ملاقات نہ ہو پائی اور وحید فارمولا آغاز سے پہلے ہی انجام کو پہنچ گیا یعنی خود بخود ختم ہوگیا۔ (6)
سیاسی گتھی سلجھنے کے جب کئی آثار نظر نہ آئے تو اسلامی دینی اتحاد کا ایک وفد مولانا سمیع الحق کی سرکردگی میں ایوانِ صدر اسلام آباد میں صدر سے ملا وفد کا خیال تھا کہ اگر صدر اور وزیر اعظم ایک دوسرے سے ملنے پر آمادہ ہوجائیں تو سیاسی مسئلہ کا کوئی حل نکل آئے، صدر نے وفد سے کہا۔
مولانا سمیع الحق نے صدر سے کہا ’’ نواز شریف اس وقت تک عام انتخابات نہیں چاہتے جب تک آپ صدر ہیں ’’ صدر غلام اسحاق خان نے جواب دیا اگر صدارت سے میری دست برداری سے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوتی ہے تو میں اس کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف خود بھی وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں تاکہ عام انتخابات ایک غیر جانبدارحکومت کی نگرانی میں ہوں۔ محمد نواز شریف کو صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ خود سے دینا ہو‘‘
’’ وزیر اعظم سے میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن حزب اختلاف کی متفقہ رائے ہے کہ سیاسی مسئلے کے حل کے لئے عام انتخابات کا فی الفور کرایا جانا ضروری ہے ۔ وزیر اعظم کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں حزب اختلاف سے بات کریں ۔‘‘
اس پر مولانا سمیع الحق نے صدر سے کہا ’’ نواز شریف اس وقت تک عام انتخابات نہیں چاہتے جب تک آپ صدر ہیں ’’ صدر غلام اسحاق خان نے جواب دیا اگر صدارت سے میری دست برداری سے عام انتخابات کی راہ ہموار ہوتی ہے تو میں اس کے لئے تیار ہوں بشرطیکہ اس کے ساتھ ساتھ نواز شریف خود بھی وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں تاکہ عام انتخابات ایک غیر جانبدارحکومت کی نگرانی میں ہوں۔ محمد نواز شریف کو صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دینا ہوگا‘‘۔(7)
12جولائی کو مولانا سمیع الحق کے ذریعہ میاں نواز شریف نے صدر مملکت سے ملاقات کی اللہ اللہ کہاں تو یہ احوال تھا ‘‘ میں کسی بھی قیمت پر صدر سے ملنے نہیں جاؤں گا ‘‘ اور کہاں یہ حالت کہ مولانا سمیع الحق کے ذریعے سلسلہ جنبانی شروع کے یہ گویا وقت دعا کی آمد کا اشارہ تھا ۔اس ملاقات کے دوران مولانا سمیع الحق نے صدر غلام صدارت کا نہیں بلکہ پوری قوم دوبارہ عام انتخابات مانگ رہی ہے۔
وزیر اعظم نے کہا :
’’جناب آپ مہربانی کریں ، خود بھی اپنی مدت پوری کریں اور مجھے بھی پوری کرنے دیں میں آپ کو ہر طرح کی گارنٹی دینے کے لئے تیار ہوں کہ آئندہ پانچ برسوں کے لئے آپ ہی کو منتخب کرلیا جائے گا ‘‘ مگر صدر نے ایک بار پھر یہی جواب دیا کہ ’’ معاملہ ان کی آئندہ مدت کے لئے صدارت کا نہیں بلکہ پوری قوم دوبارہ عام انتخابات مانگ رہی ہے ‘‘ اس پر میاں صاحب( نواز شریف) نے کہا دیکھیے آپ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ میں اپنے اڑھائی برس کی حکومت قربان کردوں گا جبکہ آپ اپنے باقی ماندہ چار ماہ بھی قربان کرنے پر آمادہ نہیں ‘‘
‘‘۔
اس موقع پر صدر نے مولانا سمیع الحق اور جنرل عبدالمجید ملک وغیرہ کو بھی اندر بلوا لیا جو میاں صاحب کے ہمراہ آتے تھے صدر نے انہیں میاں صاحب کے اعتراض اور اپنے جواب کی روداد سنائی اور کہا کہ اگر میاں نواز شریف ازخود اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے کر عام انتخابات کیلئے آمادہ ہوں تو میں ( غلام اسحاق خان ) بھی اپنا چارج چھوڑنے (RELINQUISH) کرنے پر تیار ہوں ۔ کیونکہ میں صدق دل سے اس قومی بحران کا فوری خاتمہ چاہتا ہو۔
اسی شام صدرِ مملکت نے روئداد خان کے ذریعہ چیف آف اسٹاف کو بھی تازہ صورتحال سے مطلع کیا ادھر میاں نواز شریف نے بھی ان سے سحاق خان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’’ خدارا آپ انہیں معاف کردیں‘‘ ۔
مگر صدر مملکت کا موقف بالکل واضح تھا کہ میری ان سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے بلکہ قومی بحران کے اس مرحلہ پر میں ایمانداری سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ قوم کو ازسر نو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق ملنا چایئے یہ ملاقات نمازِ ظہر کے وقت ختم ہوئی اور طے پایا کہ کل ایک اور ملاقات ہونی چاہیئے۔
مگر جب باہر نکلنے لگے تو میاں نواز شریف نے مولانا سمیع الحق کے کان میں کچھ کہا جس کے بعد مولانا سمیع الحق فوراً واپس گئے اور صدر مملکت سے کہا کہ میاں صاحب کی خواہش ہے کہ دوسری ملاقات کل کے بجائے آج ہی کر لی جائے ۔
صدر نے جواب دیا کہ ابھی راتوں رات کونسی قیامت ٹوٹ پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے‘‘پھر ایک لمحے توقف کے بعد انہوں نے عصر کی نماز کے بعد ملاقات کا ٹائم دیدیا۔ دوسری ملاقات کے دوران چند لمحے تومولانا سمیع الحق ساتھ رہے پھرانہوں نے زعماء کو تنہا چھوڑ دیا ۔
اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا:
’’جناب آپ مہربانی کریں ، خود بھی اپنی مدت پوری کریں اور مجھے بھی پوری کرنے دیں میں آپ کو ہر طرح کی گارنٹی دینے کے لئے تیار ہوں کہ آئندہ پانچ برسوں کے لئے آپ ہی کو منتخب کرلیا جائے گا ‘‘۔
مگر صدر نے ایک بار پھر یہی جواب دیا کہ ’’ معاملہ ان کی آئندہ مدت کے لئیدرخواست کی اس موقع پر ان کی موجودگی اور مداخلت ضروری ہے۔ (8)
نگران وزیر اعظم کے لئے نام کی تلاش شروع ہوئی تو میاں نواز شریف اور ان کے رفقاء نے ریٹائرڈ جسٹس ظلہ ، جاوید اقبال، اور صاحبزادہ یعقوب کے نام دئیے پہلے دو حضرات پر صدر نے اعتراض کیا ، تیسرے کے نام کے خلاف جماعت اسلامی نے پروپیگنڈہ شروع کردیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی بات رہ گئی ، اس کے بعد صدر مملکت (ر) جسٹس محمد حلیم اور ملک معراج خالد کے نام دئیے اگلے روز جنرل عبدالوحید نے صدر کو بتایا کہ جسٹس عبدالقادر شیخ کے نام پر نواز شریف اور بے نظیر دونوں متفق ہو گئے ہیں مگر صدر نے کہا ان کے خلاف بد عنوانی کے بعض الزامات ریکارڈ پر موجود ہیں پہلے انہیں چیک کرلیا جائے اگلے روز میں نواز شریف کی موجودگی میں فوجی زعما نے صدر کے بیان کی تصدیق کی اور بعض سنگین الزامات کا تذکرہ کیا جس پر صدر نے طنزاً کہا ، اب انہیں ضرور وزیر اعظم بنالیجیے تاکہ دنیا کو معلوم تو ہو کہ ہمارے وزراعظم کس قماش کے لوگ ہوتے ہیں ؟
اس موقع پر میاں نواز شریف نے ایک بار پھر یہ موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت بھی اپنے عہدے پر موجود ہیں انہیں بھی نگران وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے ، مگر ایک بار پھر صدر مملکت نے یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا اگلے روز تمام متعلقہ فریق معین قریشی کے نام پر متفق ہو چکے تھے مگر اس بات کو سخت راز رکھا جارہا تھا کہ یہ نام آیا کہاں سے معین قریشی ایک زمانے میں سرتاج عزیز کے دست راست رہ چکے تھے ۔ اس لئے بعض لوگوں کا خیال ادھر گیا بعض حلقوں نے امریکی سفیر جان سی مونجو پر اس انتخاب کی ذمہ داری ڈالی ہے۔
اسی شام جب وہ قوم کے نام اپنا خطاب سننے بیٹھے تو اپنے ہی خطاب کو سن کر ان کی آنکھیں ایک بار پھر ڈبڈبائیں اور سب کے سامنے انہوں نے جیب سے رومال نکال کر آنسو پونچھنا شروع کردئیے ادھر صدر مملکت نے بھی شام چھ بجے قوم سے اپنا آخری خطاب ریکارڈ کروایا مگر یہیاں شہباز شریف نے آخری جلوہ یہ دکھایا کہ پہلے تو نواز شریف کی تقریر رات ساڑھے دس بجے تک موخر کروائی ۔ پھر صدر مملکت کی تقریر کو روکے رکھنے کی کوشیشیں شروع کیں ٹیلی ویژن کے منیجنگ ڈائیریکٹر اور جنرل منیجر دونوں میاں نواز شریف کے ذاتی احسان مند تھے سو انہوں نے حق نمک ادا کیا اور غلام اسحاق خان کی تقریر رات پونے دو بجے ٹیلی کاسٹ کی گئی جو خود غلام اسحاق خان بھی نہیں سن سکے کیونکہ وہ معمول کے مطابق رات کے دوسرے پہر سو چکے تھے انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ:
’’ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت ‘‘۔
(9)’’جناب آپ مہربانی کریں ، خود بھی اپنی مدت پوری کریں اور مجھے بھی پوری کرنے دیں میں آپ کو ہر طرح کی گارنٹی دینے کے لئے تیار ہوں کہ آئندہ پانچ برسوں کے لئے آپ ہی کو منتخب کرلیا جائے گا ‘‘ مگر صدر نے ایک بار پھر یہی جواب دیا کہ ’’ معاملہ ان کی آئندہ مدت کے لئے صدارت کا نہیں بلکہ پوری قوم دوبارہ عام انتخابات مانگ رہی ہے ‘‘ اس پر میاں صاحب( نواز شریف) نے کہا دیکھیے آپ مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ میں اپنے اڑھائی برس کی حکومت قربان کردوں گا جبکہ آپ اپنے باقی ماندہ چار ماہ بھی قربان کرنے پر آمادہ نہیں ‘‘
‘‘۔
اس موقع پر صدر نے مولانا سمیع الحق اور جنرل عبدالمجید ملک وغیرہ کو بھی اندر بلوا لیا جو میاں صاحب کے ہمراہ آتے تھے صدر نے انہیں میاں صاحب کے اعتراض اور اپنے جواب کی روداد سنائی اور کہا کہ اگر میاں نواز شریف ازخود اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے کر عام انتخابات کیلئے آمادہ ہوں تو میں ( غلام اسحاق خان ) بھی اپنا چارج چھوڑنے (RELINQUISH) کرنے پر تیار ہوں ۔ کیونکہ میں صدق دل سے اس قومی بحران کا فوری خاتمہ چاہتا ہو۔
اسی شام صدرِ مملکت نے روئداد خان کے ذریعہ چیف آف اسٹاف کو بھی تازہ صورتحال سے مطلع کیا ادھر میاں نواز شریف نے بھی ان سے سحاق خان کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’’ خدارا آپ انہیں معاف کردیں‘‘ ۔
مگر صدر مملکت کا موقف بالکل واضح تھا کہ میری ان سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے بلکہ قومی بحران کے اس مرحلہ پر میں ایمانداری سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ قوم کو ازسر نو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا حق ملنا چایئے یہ ملاقات نمازِ ظہر کے وقت ختم ہوئی اور طے پایا کہ کل ایک اور ملاقات ہونی چاہیئے۔
مگر جب باہر نکلنے لگے تو میاں نواز شریف نے مولانا سمیع الحق کے کان میں کچھ کہا جس کے بعد مولانا سمیع الحق فوراً واپس گئے اور صدر مملکت سے کہا کہ میاں صاحب کی خواہش ہے کہ دوسری ملاقات کل کے بجائے آج ہی کر لی جائے ۔
صدر نے جواب دیا کہ ابھی راتوں رات کونسی قیامت ٹوٹ پڑنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے‘‘پھر ایک لمحے توقف کے بعد انہوں نے عصر کی نماز کے بعد ملاقات کا ٹائم دیدیا۔ دوسری ملاقات کے دوران چند لمحے تومولانا سمیع الحق ساتھ رہے پھرانہوں نے زعماء کو تنہا چھوڑ دیا ۔
اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا:
’’جناب آپ مہربانی کریں ، خود بھی اپنی مدت پوری کریں اور مجھے بھی پوری کرنے دیں میں آپ کو ہر طرح کی گارنٹی دینے کے لئے تیار ہوں کہ آئندہ پانچ برسوں کے لئے آپ ہی کو منتخب کرلیا جائے گا ‘‘۔
مگر صدر نے ایک بار پھر یہی جواب دیا کہ ’’ معاملہ ان کی آئندہ مدت کے لئیدرخواست کی اس موقع پر ان کی موجودگی اور مداخلت ضروری ہے۔ (8)
نگران وزیر اعظم کے لئے نام کی تلاش شروع ہوئی تو میاں نواز شریف اور ان کے رفقاء نے ریٹائرڈ جسٹس ظلہ ، جاوید اقبال، اور صاحبزادہ یعقوب کے نام دئیے پہلے دو حضرات پر صدر نے اعتراض کیا ، تیسرے کے نام کے خلاف جماعت اسلامی نے پروپیگنڈہ شروع کردیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی بات رہ گئی ، اس کے بعد صدر مملکت (ر) جسٹس محمد حلیم اور ملک معراج خالد کے نام دئیے اگلے روز جنرل عبدالوحید نے صدر کو بتایا کہ جسٹس عبدالقادر شیخ کے نام پر نواز شریف اور بے نظیر دونوں متفق ہو گئے ہیں مگر صدر نے کہا ان کے خلاف بد عنوانی کے بعض الزامات ریکارڈ پر موجود ہیں پہلے انہیں چیک کرلیا جائے اگلے روز میں نواز شریف کی موجودگی میں فوجی زعما نے صدر کے بیان کی تصدیق کی اور بعض سنگین الزامات کا تذکرہ کیا جس پر صدر نے طنزاً کہا ، اب انہیں ضرور وزیر اعظم بنالیجیے تاکہ دنیا کو معلوم تو ہو کہ ہمارے وزراعظم کس قماش کے لوگ ہوتے ہیں ؟
اس موقع پر میاں نواز شریف نے ایک بار پھر یہ موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت بھی اپنے عہدے پر موجود ہیں انہیں بھی نگران وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے ، مگر ایک بار پھر صدر مملکت نے یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا اگلے روز تمام متعلقہ فریق معین قریشی کے نام پر متفق ہو چکے تھے مگر اس بات کو سخت راز رکھا جارہا تھا کہ یہ نام آیا کہاں سے معین قریشی ایک زمانے میں سرتاج عزیز کے دست راست رہ چکے تھے ۔ اس لئے بعض لوگوں کا خیال ادھر گیا بعض حلقوں نے امریکی سفیر جان سی مونجو پر اس انتخاب کی ذمہ داری ڈالی ہے۔
اسی شام جب وہ قوم کے نام اپنا خطاب سننے بیٹھے تو اپنے ہی خطاب کو سن کر ان کی آنکھیں ایک بار پھر ڈبڈبائیں اور سب کے سامنے انہوں نے جیب سے رومال نکال کر آنسو پونچھنا شروع کردئیے ادھر صدر مملکت نے بھی شام چھ بجے قوم سے اپنا آخری خطاب ریکارڈ کروایا مگر یہیاں شہباز شریف نے آخری جلوہ یہ دکھایا کہ پہلے تو نواز شریف کی تقریر رات ساڑھے دس بجے تک موخر کروائی ۔ پھر صدر مملکت کی تقریر کو روکے رکھنے کی کوشیشیں شروع کیں ٹیلی ویژن کے منیجنگ ڈائیریکٹر اور جنرل منیجر دونوں میاں نواز شریف کے ذاتی احسان مند تھے سو انہوں نے حق نمک ادا کیا اور غلام اسحاق خان کی تقریر رات پونے دو بجے ٹیلی کاسٹ کی گئی جو خود غلام اسحاق خان بھی نہیں سن سکے کیونکہ وہ معمول کے مطابق رات کے دوسرے پہر سو چکے تھے انہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ:
’’ ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت ‘‘۔
سابق صدر غلام اسحاق کے بارے میں انکے دوست اور احباب کہتے تھے کہ وہ بلا کہ ذہین اور مضبوط یاد داشت کے مالک تھے ان کو مرحوم جام صادق کی یہ بات اس وقت ضرور یاد آئی ہو گی جب وہ استعفیٰ دینے کے بعد ایوانِ صدر سے رخصت ہو رہے ہونگے۔
)...حوالہ جات...(
(1) پاکستان انقلاب کے دہانے پر ۔ صفحہ نمبر 125/124/123/ مصنف روئداد خان
(2)اس نے کہا ۔ صفحہ نمبر 200/199/198. مصنف اقبال احمدخان /منیر احمد خان
(3)ایجنسیوں کی حکومت ۔ صفحہ نمبر 94 مصنف اظہر سہیل
(4)پاکستان انقلاب کے دہانے پر ۔ صفحہ نمبر 137 مصنف روئداد خان
(5) پاکستان انقلاب کے دہانے پر ۔ صفحہ نمبر 138/139 مصنف روئداد خان
(6) پاکستان انقلاب کے دہانے پر ۔ صفحہ نمبر 157/158 مصنف روئداد خان
(7) پاکستان انقلاب کے دہانے پر ۔ صفحہ نمبر158/159 مصنف روئداد خانایجنسیوں کی حکومت ۔ صفحہ نمبر 142/143 مصنف اظہر سہیل
کتاب شریف خاندان نے پاکستان کیسے لوٹا:
اب آپ کے اپنے شہر میں مندرجہ زیل بک اسٹورز پر دستیاب ہیں
کراچی ویلکم بک اردو بازار ایم اے جناح روڈ
لاہور۔۔۔۔۔ مکتبہ تعمیر انسانیت ۔ اردو بازار
لاہور۔۔۔۔۔ بک ہوم اردو بازار
حق پبلیکیشن مزنگ روڈ
بک ہوم مکتبہ تعمیر انسانیت
براہ راست حاصل کرنے کے لیئے رابطہ قائم کریں
092-03452104458
092-03062296626
obaidmujaba@yahoo.com
مندرجہ زیل معلوماتی ویب سائٹس ملاحظہ کیجیے
پاکستان کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے لیے دیکھیے
pakistan-research.blogspot.com :.
پاکستان کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے لیے دیکھیے
pakistan-research.blogspot.com :.
پاکستان کے دفاعی اداروں کے بارے میں جانیے
isi-pakistan-research.blogspot.com
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے بارے میں دیکھیے
balochistansearch.blogspot.com
متحدہ عرب امارات کے بارے میں جاننے کے لیئے دیکھیےAddress:
رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے بارے میں دیکھیے
balochistansearch.blogspot.com
متحدہ عرب امارات کے بارے میں جاننے کے لیئے دیکھیےAddress:
سعودی عرب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیئے دیکھیے
saudiarabia-search.blogspot.com
یوروپی ملک بیلجئیم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیئے دیکھیے
belgium-search.blogspot.com
یوروپی ملک بیلجئیم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیئے دیکھیے
belgium-search.blogspot.com
برطانیہ کے بارے میں جانیے
unitedkingdominurdu.blogspot.com
منشیات اور منشیات فروشوں کے بارے میں جانیے
norcotic-search.blogspot.com
منشیات اور منشیات فروشوں کے بارے میں جانیے
norcotic-search.blogspot.com
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بارے میں جانیے
karachi-apna.blogspot.com
karachi-apna.blogspot.com
No comments:
Post a Comment