ایس آر او کی سیاست




ایس آر اوکی سیاست
اور خاندانی دولت میں اضافہ

  


ISBN NO.978-969-9613-00-5


 
پنجاب کی وزارت اعلیٰ ملنے کے بعداب دولت کے ساتھ ہی ساتھ اقتدار بھی اس گھر کی لونڈی بن چکی تھی وہ تمام افسران جن کے دروازوں پر بڑے بڑے ارب پتی اور کھرب پتی اپنی درخواستوں اور فائلوں کے ساتھ بیٹھے رہتے تھے اب اتفاق فیملی کی چوکھٹ پر ان کے اشارے کے منتظر بیٹھے رہتے تھے کہ معلوم نہیں کس وقت صاحب کا کیا موڈ بن جائے ؟اس موقع کا فائدہ شریف فیملی نے اس طرح سے حاصل کیا کہ سی بی آر کے ذریعے ایسے ایس آر او (SRO)جاری کرائے گئے جن کے ذریعے ان کی دولت میں اضافع ہوتا جنرل ضیاء کے ابتدائی دور میں چونکہ قومی اسمبلی کا کوئی وجود نہیں تھا اس لئے سی بی آر کے زریعے تمام نئے ٹیکس ،چھوٹیں ،رعائت و قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں اس مقصد کے لئے ایس آر او(SRO )جاری کئے جاتے تھے مگراس کا فائدہ شریف فیملی نے کچھ اس طرح سے حاصل کیا۔ 
1986 ء اور1987 ء 
کا وفاقی بجٹ مشہو ر بین الاقوامی ماہر اقتصادیات ڈاکٹر 
محبوب الحق وزیر خزانہ نے پیش کیا تھا ڈاکٹر محبوب الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اقتصادیات کے جادوگر تھے اور انہوں نے کوریا کی اقتصادی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا تھا ڈاکٹر محبوب الحق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ملک کے اقتصادی ڈھانچے میں موجود کرپشن اور کرپٹ لوگوں کی نشاندہی کی تھی ایوب خان کے دور میں ملک کے اندر 22 دولتمندخاندانوں کی نشاندہی اور اس کی لسٹ کا تذکرہ بھی ان سے ہی منسو ب کیا جاتا ہے اس کے علاوہ بیورو کریسی کے اندر ہونے والے کرپشن کی بھی نشاندہی انہوں نے کی تھی کہ ملک کی دولت کا ایک بہت بڑا حصہ یہ بیوروکریسی ہڑپ کر جاتی ہے اس وقت مرحوم محمد خان جونیجو ملک کے وزیر اعظم تھے۔
 ڈاکٹرمحبوب الحق جو کہ اقتصادی جادو گر تھے ان کے دور میں1986ء اور1987 ء کے بجٹ میں اسٹیل پر امپورٹ ڈیوٹی 750فی ٹن سے کم کرکے 418 روپے فی ٹن کردی گئی اس کہ نتیجے میں اتفاق فونڈری کو براہ راست 200 ملین روپوں کا فائدہ حاصل ہو(1) لیکن اس چھوٹ کا اعلان پاکستان کی اس انڈسٹر ی پر نہیں کیا گیا جو کہ کسی زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی شپ بریکنگ انڈسٹری تھی اور جس کی وجہ سے ایک طرف پاکستان کو اس زمانے میں ہر سال اربوں روپوں کا فائدہ حاصل ہوتا تھا دوسری جانب ہزاروں افراد کو روزگار بھی حاصل ہوتا تھا پھر پاکستان اسٹیل ملز کو بھی ترقی حاصل ہوتی جو پاکستان کا سب سے اہم ترین منصوبہ تھا حالانکہ ڈاکٹر محبوب الحق ماہر اقتصادیات ہونے کی وجہ سے یقیناًملک کی اس اہم انڈسٹری کے بارے میں جانتے ہوں گے اور ان کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس چھوٹ کا فائدہ کس کو حاصل ہو گا؟ اور کس کو نقصان ہوگا ؟مگر انہوں نے اپنا اصل کام نہیں انجام دیا بلکے ایک مخصوص گروپ کو بطور خاص ڈیولیپ کیا۔ 
میاں نواز شریف جیسے جیسے مقتدر حلقوں میں رسائی حاصل کرتے گئے اور اپنا سیاسی قد بڑھاتے گئے ، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے اپنے ذاتی کاروبار اور مفادات کو بھی تقویت دینا شروع کردیا ۔ 
اس نوعیت کے مفادات کے حصول کا سلسلہ 16جون 1979ء کو اتفاق فاونڈریز کی قومی تحویل سے واپسی کی صورت میں شروع ہوا ۔ یہ خصوصی اقدام جنرل ضیاالحق کی ہدایت پر کیا گیا تھا ۔
 اس کے بعد ایک خصوصی حکم کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے اتفاق شوگر ملز کو ایکسائیز ڈیوٹی میں 50فیصد کے حساب سے رعایت دی اور یہ رعایت ایس آراو کے ایک خصوصی حکم کے زریعے اتفاق خاندان کو دی گئی ۔ اتفاق خاندان کی اس خدمت کے نتیجے میں نواز شریف نے انہیں سینٹ کا چیئرمین بنانے کی کوشش کی مگر اس میں ناکام رہے اور ان کی جگہ پر سینٹ کے چیئرمین غلام اسحق خان بدستور رہے۔
 مگر اس کے بعد شریف خاندان اپنی صنعتی اسٹیٹ کی وسعت میں ڈاکٹر محبوب الحق کی خدمات سے استفادہ حاصل کرتے رہے اتفاق خاندان کی دست برد کا نشانہ صرف شپ بریکنگ انڈسٹری ہی نہیں بنی تھی بلکہ بہت سی انڈسٹریوں کا تیہ پائنچہ اتفاق گروپ نے کیا ان میں کراچی کی شپ یارڈاینڈ انجیرنگ ورکس بھی ان کی ہوس کا نشانہ بنا اتفاق گرو پ نے اپنے دور اقتدار میں کراچی شپ یارڈ میں کوئی شوگر انڈسٹری بننے ہی نہیں دی حالانکہ کراچی شپ یارڈ ملک کی وہ انڈسٹری ہے جہاں پہلے بھی اور اب بھی کسی بھی طرح کی بین الاقوامی معیار کی مشینیں تیار کی جاسکتی ہیں حالانکہ ماضی میں کراچی شپ یارڈ نے گیارہ شوگر انڈسٹریاں بنائیں بھی تھیں ان کے لئے تمام تر مشنریاں فراہم کی تھیں ۔ڈاکٹر محبوب الحق کی اس پالیسی کی وجہ سے ملک کی اس انڈسٹری کو اربوں روپوں کا نقصان اٹھانا پڑا جب کہ بے روز گاری الگ بڑھی۔
جن دنوں شریف برادران کے اسکریپ سے لدے ہوئے بحری جہاز کراچی کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہو رہے تھے تو حکومت نے 2جولائی 1991ئمیں اسٹیل اسکریپ پر لاگو 1500روپے فی ٹن ڈیوٹی کم کرکے صرف500روپے فی ٹن کردیا۔ اس طرح اتفاق فونڈریز کو گھر بیٹھے 50کروڑ روپے کا منافع حاصل ہو گیا اس اقدام کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان اسٹیل ملز اور سندھ کی اسٹیل ری رولنگ ملز کو پہنچا(2)۔ جبکہ ان دنوں پاکستان ریلوے کا ایک ہی کام تھا کہ اس کی تما م مال گاڑیاں اتفاق فونڈریز کے لئے بیرون پاکستان سے لائے گئے اسکریپ کو کراچی سے لاہور منتقل کرنا عام تاجر اور کاروباری کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ان دنوں پاکستان ریلوے کے ذریعے اپنا مال کراچی سے پنجاب یا لاہور منتقل کردیتا۔
ان ہی دنوں پنجاب میں سابق وزیر اعلیٰ کے دور میں ہونے والی مالی بد عنوانیوں کے انکشافات منظر عام پر آنے لگے 1988ئکے انتخابات میں خرد برد کی گئیں رقوم کی ناقابل بیان تفصیلات بھی سامنے آئیں ۔
 آڈیٹر جنرل پنجاب نے89 ۔ 1988 ء کو بدعنوانیوں کے باعث مالی بحران کا سال قرار دیا ۔ ان کے بقول مجموعی طورپر ایک ارب 20کروڑ روپے اعلیٰ سطح کی بدعنوانیوں کی بھینٹ چڑھے ۔


)...حوالہ جات...(
(1) شریف لٹیرے صفحہ نمبر162 شاہد الرحمان
(2) شریف لٹیرے صفحہ نمبر165 شاہد الرحمان
مندرجہ زیل معلوماتی ویب سائٹس ملاحظہ کیجیے
 پاکستان کے بارے میں ہر طرح کی معلومات کے لیے دیکھیے
Address:.pakistan-research.blogspot.com
 رقبے کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے بارے میں جانیے
balochistansearch.blogspot.com
پاکستان کے دفاعی اداروں کے بارے میں جانیے
isi-pakistan-research.blogspot.com
 متحدہ عرب امارات کے بارے میں جاننے کے لیئے دیکھیے
Address: uaesearch.blogspot.com
سعودی عرب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیئے دیکھیے
 saudiarabia-search.blogspot.com
یوروپی ملک بیلجئیم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیئے دیکھیے
belgium-search.blogspot.com
برطانیہ کے بارے میں جانیے
unitedkingdominurdu.blogspot.com
منشیات اور منشیات فروشوں کے بارے میں جانیے
norcotic-search.blogspot.com
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بارے میں جانیے
karachi-apna.blogspot.com

No comments:

Post a Comment